ضمیر کے بوجھ تلے
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہمارے مالی حالات بہت خراب تھے۔ میرا بڑا بھائی سلیم کالج کا طالب علم تھا۔ والد صاحب معمولی سرکاری ملازم تھے لیکن بیماری کے باعث بغیر تنخواہ چھٹیوں پر تھے۔ والدہ گھریلو خاتون تھیں۔
کفالت کا کوئی ذریعہ نہ تھا۔ایسے میں ہم کو تعلیم کو خیرباد کہنا تھا اور کوئی ذریعہ روزگار تلاش کرنا تھا، خاص طور پر سلیم بھائی کو ، تاہم ہم دونوں میں سے کوئی بھی ملازمت کی خاطر تعلیم کو خیر باد کہنے پر تیار نہ تھا۔
میں لڑکی تھی، مجھ کو قربانی دینی پڑی اور ایف اے کے پرچے دے کر میں نے کالج کو خدا حافظ کہہ دیا، تاکہ کہیں چھوٹی موٹی جاب ڈھونڈ لوں۔سلیم بھائی کو والد صاحب نے کالج چھوڑنے سے منع کر دیا۔
مشورہ دیا کہ جب تک میں تندرست نہیں ہوتا ٹیوشن پڑھا دیا کرو۔ سلیم بھائی ایسے بچوں کی تلاش میں تھے جو ان سے شام کو ٹیوشن پڑھیں اور ان کی کالج فیس نکل آئے۔
بھائی کے ایک پروفیسر نہایت مہربان اور شفیق تھے ، ان کے رشتہ دار کا ایک پرائیویٹ گرلز اسکول ہمارے محلے میں تھا۔ میں نے بھائی کو مشورہ دیا کہ اپنے پروفیسر سے تذکرہ کرو شاید پرائمری یا سیکنڈری اسکول کے طالب علموں کی ٹیوشن دلوا دیں۔
پروفیسر رضا صاحب چونکہ اپنے طالب علموں کی تعلیمی حالت کے بارے انفرادی دلچسپی لیتے تھے لہٰذا انہوں نے ایک روز بھائی سے خود پوچھ لیا کہ آج کل پریشان نظر آتے ہو جس کی وجہ سے تمہاری تعلیم پر اثر پڑ رہا ہے –
کیا پریشانی ہے مجھے بتائو۔ پروفیسر صاحب نے گھر کا پتہ دیا اور سلیم بھائی ایک شام ان کے پاس گئے۔ انہوں نے بیٹھک میں بٹھایا، بھائی سے شفقت کے ساتھ بات چیت کی تو اس نے بتا دیا کہ والد بیمار ہیں اور کچھ مالی پریشانی ہے۔
چھوٹی بہن کو ٹیچنگ جاب چاہئے ، جبکہ میں بھی شام کی جاب تلاش کر رہا ہوں۔ پروفیسر صاحب کو جب علم ہوا کہ ان کے کزن کا اسکول ہمارے محلے میں ہے،انہوں نے کزن کو فون کر کے معلوم کیا کہ کیا وہاں چھوٹے بچوں کو پڑھانے کیلئے استانی کی ضرورت ہے۔
کزن نے بتایا کہ ایک ٹیچر کی آسامی خالی ہے۔ تم اپنی سسٹر کو کہو کہ کل میرے کزن سے مل لے … وہ اسے ملازمت دے دیں گے۔ اگر کچھ بچوں کو ٹیوشن درکار ہو گی تو بھی وہ پڑھا دے گی۔
تم فی الحال اپنی تعلیم کی جانب توجہ دو کیونکہ دو تین مضامین میں تمہارے نمبر کم آئے ہیں ،ان پر خاص طور سے محنت درکار ہے… اگر میری مدد چاہئے شام کو آجایا کرو میں ان مضامین کو تمہیں گھر پر پڑھا دیا کروں گا۔
سالانہ امتحان نزدیک تھا، جن مضامین میں بھائی کمزور تھے وہ اپنے پروفیسر سے ان کے گھر پر جا کر پڑھنے لگے۔ پروفیسر صاحب نے بھائی کی فیس بھی معاف کرا دی۔ یہ ایک بڑی مدد تھی اور ہم اس مدد پر ان کے ازحد مشکور اور احسان مند تھے۔
ایک بار سلیم بھائی پر وفیسر صاحب کے گھر گئے۔ اتفاق کہ وہ موجود نہ تھے۔ دروازہ کھٹکھٹایا دستک پر چوبارے کی کھڑ کی کھلی اور پھر بند ہو گئی۔اس کے بعد اکثر ایسا ہوتا۔ جب بھی سلیم بھائی وہاں جاتے اور پروفیسر صاحب گھر پر نہ ہوتے۔
دستک پر کھڑکی کے پیٹ اسی طرح کھلتے اور پھر بند ہو جاتے۔ بھائی سمجھ جاتے کہ استاد صاحب گھر نہیں ہیں لہٰذا اس کھڑکی کا نوٹس کئے بغیر وہ واپس لوٹ آتے۔ اگر استاد صاحب گھر پر موجود ہوتے تو دستک پر آواز لگاتے کون ہے ،اور فوراً ہی باہر آجاتے۔
اسی طرح کافی دن بھائی جاتے رہے۔ امتحان تک وقفے وقفے سے ان کے گھر جا کر پڑھتے رہے۔ امتحان ختم ہو گیا۔ عیدالفطر میں تین دن باقی تھے۔ ان دنوں اکثرعید کارڈز اور تحفے وغیرہ بھیجے جاتے تھے۔
سلیم بھائی بھی ایک عید کارڈ اور رومال کا ایک بند پیکٹ لے کر پروفیسر صاحب کے گھر کی طرف چل دیئے، وہاں جا کر زیریں منزل کے صدر دروازے پر دستک دی۔ چوبارے کی کھڑکی کھلی پھر بند ہو گئی۔
تھوڑی دیر وہ وہاں ٹھہرے مگر پھر جب یقین ہو گیا کہ استاد صاحب گھر پر نہیں ہیں تو واپس چلنے کو مڑے ہی تھے تب ہی دروازہ کھلا اور صفائی کا کام کرنے والی عورت ہاتھ میں جھاڑو لئے باہر نکلی… بھائی نے یونہی پوچھا۔ پروفیسر صاحب گھر نہیں ہیں۔
نہیں؟ کیا اور کوئی ہے… ہاں ، وہ لڑکی ہے نا، نوشی….. یہ کہہ کر وہ آگے بڑھ گئی۔ شاید اسے کسی دوسرے گھر کا کام کی جلدی تھی۔ عید کارڈ اور عید کا تحفہ بھائی نے کالج جا کر ہی سر کو دیا۔
انہوں نے اپنے شاگرد کے خلوص اور جذبات کی قدر کی اور بہت خوش ہوئے۔ نیا سال اور نئی کلاسیں شروع ہو گئیں، بھائی کافی دن پر وفیسر صاحب کے گھر نہیں گئے، جانے کی اب ضرورت ہی نہ تھی۔ ایک دن پتہ چلا کہ کہ سر نہیں آ رہے کیونکہ بیمار ہیں۔
بیماری کا سن کر سلیم بھائی ان کی عیادت کو چلے گئے۔ در پر دستک کی ، کنڈی کھلی اور بند ہو گئی۔ وہ جانے کو ہی تھے کہ ایک بچی باہر آئی اور بولی … آپ اوپر آ جائے۔ بھائی پہلے کبھی اوپر نہیں گئے تھے، سمجھے کہ شاید پروفیسر صاحب اوپر موجود ہیں اور گھر پر اکیلے ہیں، تب ہی اوپر بلا لیا ہے۔
اوپر گئے تو ایک نوجوان لڑکی سامنے آئی اور کمرے میں لے گئی، کہنے لگی کہ پروفیسر صاحب ڈاکٹر کے پاس گئے ہیں، آپ بیٹھئے۔ سلیم بھائی نے وہاں اکیلے بیٹھنا مناسب نہ سمجھا… واپس جانے کو مڑے تو نوشی نے کہا… سنئے۔
آپ اتنے دنوں تک کیوں نہیں آئے ؟ وہ خوبصورت تھی مگر افسردہ نظر آرہی تھی۔ بھائی نے جاتے جاتے پوچھ ہی لیا، نوشی صاحبہ آپ اتنی غمزدہ کیوں نظر آرہی ہیں۔ کہنے لگی۔ کوئی غمگسار جو نہیں ہے، کس کو بتائوں اپنا دکھ ۔
اب بھائی کی ہمت کچھ بڑھ گئی۔مجھے بتا دیجئے ۔ آج نہیں، پھر کسی وقت آئیے گا تو بتا دوں گی۔ جب پروفیسر صاحب کالج گئے ہوں گے تب بتا سکوں گی۔ دو چار دن گزرے تو بھائی کو نوشی کا خیال آیا۔
نہ چاہتے ہوئے بھی قدم پروفیسر صاحب کے گھر کی جانب اٹھ گئے ۔ یہ پہلی لڑکی تھی جس میں میرے بھائی نے نے دلچسپی لی تھی۔ اب ہفتہ میں میں ایک دو بار وہ ایسے وقت جانے لگا جب کہ استاد صاحب گھر نہ ہوتے تھے۔
نوشی دروازے پر آجاتی اور سلیم بھائی دہلیز سے باہر ادھر اُدھر کی دوچار باتیں کرتے تھے۔ضرور ان باتوں میں محبت کا جذبہ بھی پوشیدہ تھا، پھر یہ ہوا کہ دونوں ایک دوسرے کو محبت نامے تحریر کرنے لگے اور اپنے دلی جذبات شاعرانہ انداز میں بیان کرنے لگے۔
یہ خط گھر سے لکھ کر لے جاتے اور اس کے ہاتھ میں تھما دیتے اور وہ بھی محبت نامہ تحریر کر کے رکھتی تھی، یوں الفاظ کے پروں پر جذبات کا تبادلہ ہوتا رہا، مگر گھر کی دہلیز کے باہر سے ہی .. ابو اب صحت یاب ہو چکے تھے۔
نوکری پر جانے لگے اور بھائی سلیم نے گریجویشن مکمل کر لی تو ایک روز سوچا کہ کسی طرح پروفیسر صاحب سے اپنا مدعا بیان کر دیں کہ وہ ان کی لڑکی نوشی سے شادی کرنا چاہتے ہیں۔ بھائی خود تو یہ بات اپنے استاد سے نہ کر سکتے تھے۔ مجھے کہا۔
ماہ جبیں کسی طرح تم ہی پروفیسر صاحب سے ان کی بیٹی کا رشتہ میرے لئے طلب کرنے میں امی کی مدد کرو۔ آپ لوگ وہاں جا کر بات کرو۔ استاد محترم سے اس بات کے کرنے میں سلیم بھائی کو شرم محسوس ہوتی تھی۔
سوچتے تھے کیا خبر پروفیسر صاحب نوشی کی شادی کسی اور سے کرنے کا ارادہ کر چکے ہوں۔ ایسی صورت میں ظاہر ہے بات کر کے کھوئیں گے ۔ کچھ دنوں بعد خود سلیم بھائی استاد صاحب کے گھر گئے کہ ابھی امی سوچ بچار میں تھیں۔
پروفیسر نے محبت سے گھر کے اندر بلایا اور بجائے بیٹھک کے سیدھے اوپر اپنے بیڈ روم میں لے گئے ۔ آج گھر کا نقشہ ہی بدلا ہوا تھا۔ وہاں نوشی موجود نہیں تھی اور کوئی بھی نہیں تھا، تب ہی ہمت کر کے سلیم نے پوچھ ہی لیا۔
آپ کی بیٹی اور بیگم کہیں گئی ہوئی ہیں؟ پروفیسر صاحب نے کہا۔ میری کوئی بیٹی نہیں ہے، البتہ بیگم ہیں اور وہ میکے گئی ہیں۔ سامنے نوشی کی تصویر ٹیبل پر رکھی تھی۔ یہ آپ کی بیگم ہیں؟
بھائی نے تصویر کی طرف اشارہ کیا، لہجے میں حیرت تھی۔ ہاں یہ میری بیوی ہے۔ دراصل پہلی بیوی کی وفات کے بعد کافی عرصہ شادی نہ کی۔ یہ عمر میں مجھ سے کافی چھوٹی ہیں۔ ہاں… میں بھی ان کو آپ کی بیٹی سمجھتا رہا۔ معاف کر دیجئے آگے زبان نے ساتھ نہ دیا… چلو … اب غلط فہمی دور ہو گئی۔
عمر کے فرق کی وجہ سے اکثر لوگوں کو غلط فہمی ہو جاتی ہے۔ پروفیسر صاحب کیلئے یہ بات معمولی تھی مگر سلیم انہیں کیسے بتاتے کہ میرے لئے یہ بات اتنی معمولی نہیں۔
وہ بہت پریشان ہوئے اور ان کی بیوی کے کردار پر دکھ ہوا کہ اس نے دھوکے میں رکھا اور بہت برا کیا، استاد کی عزت اور محسن کی گھر والی کیلئے ایسے جذبات دل میں پیدا ہو گئے کہ خط و کتابت تک نوبت چلی گئی۔ یقینا نوشی جان بوجھ کر یہ خطرناک کھیل رہی تھی۔
بھائی گھر آئے تو بے حد اپ سیٹ تھے ، اس رات شب بھر نہ سو سکے ۔ دل پر منوں بوجھ پڑا تھا، ذہنی دبائو بڑھا تو بیمار ہو گئے۔ پروفیسر صاحب سے دل ہی دل میں ندامت ہو رہی تھی۔ مجھ سے مشورہ کیا کہ یہ بات ہے…
اب بتائو کہ میں کیسے اپنے استاد سے معافی طلب کروں کہ اپنے محسن کی بیوی کو محبت نامے تحریر کرتا رہا ہوں۔ ضمیر کے بوجھ سے ہی مر ہی جائوں گا۔ موقع ملے تو صاف بات کر کے معافی مانگ لینا۔
اس سے پہلے کہ نوشی کوئی فریبی جال بن کر تمہاری تحریریں ان کے حوالے کر دے۔ بھائی کی بیماری کا ایک کلاس فیلو کے ذریعے جب پر وفیسر صاحب کو علم ہوا، وہ عیادت کو چلے آئے تب سلیم سے ضمیر کا بوجھ سنبھالا نہ گیا اور پلنگ کی دراز سے خطوط کا پلندہ نکال کر ان کے حوالے کر دیا۔
پھوٹ پھوٹ کر روئے کہ لاعلمی میں غلطی ہوتی ہے،اگر علم ہوتا کہ نوشی آپ کی بیٹی نہیں بیوی ہے توایسی غلطی کبھی نہ کرتا۔ نوشی نے خود اس غلط فہمی کو قائم رکھا اور میں آپ کی غلامی کا آرزومند ہو گیا۔
خطوط دیکھ کر پروفیسر صاحب کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ یقینا ان کو بہت ہی صدمہ پہنچا تھا مگر اب سلیم بھائی ہر سزا کے لئے تیار تھے کیونکہ اُنہوں نے اعتراف جرم کر کے اپنی روح کا بوجھ تو ہلکا کر دیا تھا۔ پروفیسر صاحب نے ان کو کچھ نہ کہا، البتہ گھر جا کر انہوں نے ایک بہت بڑا فیصلہ کر لیا۔
ایسا جذ باتی فیصلہ کہ جس کی توقع ان جیسے پختہ عمر کے آدمی سے نہیں کی جاسکتی تھی، انہوں نے اپنی نوعمر بیوی کو طلاق دے دی۔ کہا کہ جس شے کو میں سنبھال کر نہیں رکھ سکتا، اس پر میر ا کچھ حق نہیں …
یوں انہوں نے بھائی سلیم کی نادانی کے باعث خود کو تنہا کر دیا۔ آج میں سوچتی ہوں کہ اگر سلیم بھائی خطوط کے اس پلندے کا بوجھ خود اٹھا لیتے اور اپنے استاد کو نہ بتاتے تو شاید پر وفیسر صاحب کبھی تنہا نہ ہوتے۔
البتہ نوشی کے تنہا ہونے کا خدشہ کم ہے کہ اس عمر میں ایسی خوبصورت لڑکی تنہا نہیں رہ سکتی، کوئی نہ کوئی جیون ساتھی مل ہی جاتا ہے۔