ساتھی
بھائی بیٹھک میں امتحان کی تیاری کر رہے تھے کہ پڑوس کی لڑکی ہمارے لئے کچھ لے کر آئی۔ گھر والے سبھی کہیں گئے ہوئے تھے ، وہ سیدھی بیٹھک میں چلی گئی اور رومال سے ڈھکی پلیٹ بھائی ساحر کے سامنے رکھ کر چل دی۔
انہوں نے کچھ پوچھنا چاہا تو کچھ نہ بولی ، بس پھیکی سی مسکراہٹ اس کے لبوں پر آئی اور مٹ گئی۔ اس کے مسکرانے کا انداز عجیب تھا۔ چہرے پر مجبوری کی چھاپ تھی۔ بھائی نے- نے سمجھ لیا کہ یہ ان لوگوں میں سے ہے ، جو ازلی کم نصیب کہلاتے ہیں۔
شاید یہ اپنے گھر والوں پر بوجھ ہے۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا تو میں نے بتایا کہ اس کا نام راحیلہ ہے اور یہ یتیم ہے۔ اس کے سگے ماں باپ مر چکے ہیں اور اب سوتیلی ماں کے برے سلوک نے اسے پور پور زخمی کر ڈالا ہے۔
ڈری سبھی راحیلہ اپنی ادا کے نجانے کون سے رنگ میرے بھائی پر پھینک کر گئی کہ وہ اس کے دھندلے نقوش کو ذہن سے نہ مٹا سکا اور پرچوں کی تیاری کے دوران ، تنہائی میں بیٹھ کر یہ نقوش تیز رنگوں والی تصویر کی مانند اس کے دل کے کینوس سے چپک کر رہ گئے۔
باپ جب تک زندہ تھا اس لڑکی کی کچھ نہ کچھ اہمیت تھی۔ چار برس قبل وہ بھی اللہ کو پیارا ہو گیا، اس وجہ سے گھر میں اسے اور بھی زیادہ غیر اہم قرار دے دیا گیا۔ سوتیلی ماں کے چار چھوٹے چھوٹے بچے تھے، جن کی دیکھ بھال کے لئے اس نے راحیلہ کو ایک نوکرانی کی سی حیثیت دے رکھی تھی-
ورنہ کب کا مرحوم شوہر کے کسی رشتہ دار کے در پر پھینک آتی۔ دو منزلہ مکان راحیلہ کے والد کا ذاتی تھا۔ پہلی منزل میں راحیلہ ، اس کی سوتیلی ماں بچوں کے ساتھ رہتی تھی اور دوسری منزل کرایے پر دی ہوئی تھی، جس سے ان کی اچھی گزر بسر ہو جاتی تھی۔
کچھ والد مرحوم کی پنشن آتی تھی اور کچھ امداد سوتیلی ماں کے بھائی کر دیتے تھے۔ ایسے حالات میں یہ لڑکی شدید محرومی اور احساس تنہائی کا شکار ہو گئی۔ اس کی کمزوری تھی کہ ذرا کوئی پیار سے بات کرتا، وہ اس کی دیوانی ہو جاتی۔
بچپن میں تو اس بات پر پٹتی بھی بہت تھی۔ اب کچھ سمجھدار ہو گئی تھی، تاہم ابھی اس کی عمر پندرہ سولہ برس ہی تھی۔ عموں نے اس کو بالکل نرم دل بنادیا تھا اور ساتھ ہی بزدل بھی۔
بات بات پر جھجکنے ، کھٹکے سے چونک پڑنے اور ذرا سی بات سے رود ینے والی یہ لڑکی ، اس قدر عجب دکھائی دیتی کہ کوئی اس کو قطعی نظر انداز نہ کر سکتا تھا۔ہمارے محلے میں ایک دستکاری اسکول تھا، اس کی ہیڈ مسٹریس میری رشتے کی پھو بھی لگتی تھیں۔
وہ اکثر مجھ کو اپنے ادارے کے حساب کتاب کے لئے بلا لیتی تھیں۔ میں ساحر بھائی کے ساتھ وہاں چلی جاتی۔ راحیلہ بھی اس اسکول میں دستکاری سیکھنے آتی تھی۔ میں پھوپھو کے آفس سے اسے دیکھ لیتی تو باہر نکل کر بات کرتی اور اسے کہتی کہ تم نے اسکول چھوڑ دیا اور دستکاری سیکھ رہی ہو۔
اسکول کی پڑھائی بھی ساتھ جاری رکھو۔ امی نے اسکول سے ہٹا لیا ہے اور خود سے پڑھائی نہیں کر سکتی۔ کوئی پڑھانے والا بھی تو ہو ، امی تو سارا دن کام پر لگائے رکھتی ہیں دن کو پڑھ نہیں سکتی۔ میں نے پھو پھی کو بتایا۔ وہ راحیلہ کو طور اطوار سے چھا جانتی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ میں دو گھنٹے ، کلاس میں پڑھائی کے لئے فری کر سکتی ہوں بشر طیکہ تم دو تین گھنٹے یہاں آکر اسے پڑھا دو۔ بڑی نیکی ہو گی ، اگر تم اسے پرائیویٹ میٹرک کی تیاری کرادو گی۔
گھر سے وقت نکالنا مشکل تھا، پھر بھی میں نے ہامی بھر لی اور دستکاری اسکول جا کر راحیلہ کو دو گھنے پڑھانے لگی، یہ سوچ کر کہ شاید پڑھائی کبھی اس کو زندگی میں کام آئے۔ اس کی ماں تو اس کو اس لئے سکھارہی تھیں کہ ان کے بچوں کو کپڑے سینے کے لئے ایک مفت کی درزن مل جائے گی۔
اس طرح ہم ایک دوسرے کے بہت نزدیک آ گئے۔ میری محبت اور اعتبار پاکر اس میں کافی تبدیلیاں آرہی تھیں۔ اب وہ ذرا ہمت سے بات کر سکتی تھی، جھجھک بھی کم ہو گئی تھی جو پہلے اس کو کسی سے مخاطب کرنے سے روکتی تھی۔
میں نے دوماہ تک اسے پڑھا یا پھر دستکاری اسکول جانا میرے لئے محال ہونے لگا۔ ادھر امی گھر کا کام اکیلے نہ کر سکتی تھیں اور آپا تو اپنے گھر بار کی تھیں۔ میں نے دستکاری سیکھی ہوئی تھی۔
راحیلہ کی سوتیلی ماں یہ بات جانتی تھی، تبھی میں نے آنٹی سے کہا کہ آپ اس کو شام کو تھوڑی دیر میرے پاس بھیج دیا کریں، میں اس کو اتنی دستکاری اور سکھادوں گی۔ یوں وہ ڈپلوما میں کوئی اچھا درجہ حاصل کرلے گی۔
انہوں نے کچھ سوچا اور پھر کہا ٹھیک ہے ، تم اس کو کٹنگ اچھی طرح سکھا دو – میں نے شکر کیا کہ انہوں نے منع نہیں کیا تھا۔ ہمارے گھر ساتھ ساتھ تھے اور ہماری بیٹھک ان کے گھر سے ملی ہوئی تھی۔ اس کا ایک دروازہ گلی میں کھلتا تھا۔
جیسے ہماری بیٹھک کا دروازہ گلی میں کھلتا تھا، اس کے ساتھ ان کی بھی بیٹھیک ہی تھی جس کو انہوں نے کمرے میں تبدیل کیا ہوا تھا اور یہ کمرہ اس کی ماں نے راحیلہ کو ہی دیا ہوا تھا کیونکہ یہ گھر کے سب کمروں سے چھوٹا تھا۔
پہلے تو راحیلہ گھر آکر مجھ سے پڑھتی ، بعد میں جب میں کام سے فارغ نہ ہوتی تب ساحر بھائی سے کہتی کہ آپ اس کو پڑھا دو۔ بھائی اس کو بیٹھک میں پڑھاتے تھے کیونکہ انہیں بھی پڑھنے لکھنے کے لئے بیٹھک ہی ملی ہوئی تھی۔
اب یہ ہمارا معمول بن گیا کہ جب والد صاحب آبائی گائوں چلے جاتے ، راحیلہ بھائی سے ہی پڑھتی۔ مجھے نہیں خبر کب دونوں ایک دوسرے کے نزدیک آ گئے کہ اب آدھی رات کو اپنے کمرے کا گلی والا دروازہ کھول کر وہ ہماری بیٹھک میں آجاتی۔
اس نے دستکاری اسکول بھی خیر باد کہہ دیا۔ اس کا کورس مکمل ہو گیا تھا۔ جس رات راحیلہ کو آنا ہوتا وہ شام کو ہی کھڑ کی سے اشارہ کر دیتی تھی۔ ساحر بھائی کے امتحان ہو چکے تھے۔ رزلٹ آیا تو ان کو ملازمت مل گئی۔ شام کو دفتر سے لوٹے تو راحیلہ کو کھڑ کی میں دیکھا۔
اس نے بھائی کو اشارہ کیا۔ اس کے پیچھے اس کی چچازاد کھڑکی میں کھڑی تھی، جس نے دونوں کو ایک دوسرے کو اشارہ کرتے دیکھ لیا۔ دوسرے روز وہ عورت ہمارے گھر آئی اور میری والدہ کو تمام ماجرہ کہہ دیا۔ بھائی دفتر سے آئے تو امی ان پر برس پڑیں۔
ساحر تم آخر کیا چاہتے ہو ؟ جانتے ہو کہ راحیلہ ایک یتیم لڑکی ہے اور بہت دکھی ہے۔ پہلے ہی اس کے گھر میں ، اس کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ خدا کے لئے اس خطرناک کھیل سے باز آ جائو۔
اگر اس کی چازاد بہن نے اس کی سوتیلی ماں سے شکایت کر دی تو وہ ظالم عورت اس بچاری لڑکی کو کھڑے کھڑے گھر سے نکال دے گی۔ پھر بتائو ! اس کا کہاں ٹھکانہ ہو گا؟ تم اس سے شادی نہیں کر سکتے ، تمہاری منگنی ہو چکی ہے۔
تمہارے ابا تمہارے ٹکڑے کر دیں گے مگر یہ منگنی اب نہیں ٹوٹ سکتی۔ اب بتائو کہ تم کیا چاہتے ہو۔ ماں کا لمبا چوڑا لیکچر سن کر بھائی جھنجھلا گئے۔ حالانکہ وہ سچ کہہ رہی تھیں لیکن بھائی کا دل خود بخود را حیلہ کی طرف کھنچتا تھا۔
امی کے سامنے تو انہوں نے اپنے قصور سے انکار کر دیا اور کہہ دیا کہ اس عورت سے پوچھو کہ کیا اس نے ہم کو آپس میں باتیں کرتے دیکھا ہے ؟ پھر کیوں وہ ہم پر بہتان تراش رہی ہے۔
بھائی کو امی نے دھمکایا کہ باز آجائو ، ورنہ میں تمہارے والد سے کہہ دوں گی مگر ساحر بھیا بھی اپنی بات پر ڈٹے رہے۔ راحیلہ کی چچازاد بہن جو شادی شدہ تھی اور چچی کے پاس دو تین روز کے لئے رہنے آئی تھی ، اس نے امی کو تو خبر دار کیا مگر اپنی بچی کو نہ بتایا۔
جانتی تھی کہ سوتیلی ماں ، راحیلہ کا کیا حشر کرے گی وہ اپنے گھر چلی گئی۔ ساحر نے اس تنبیہ سے کوئی اثر نہ لیا۔ وہ بدستور کھڑکی کے سامنے کتاب کھول کر بیٹھا رہتا اور اس کی اوٹ سے دیکھتا رہتا۔
اس نے راحیلہ کو پہلے ہی بتادیا تھا کہ میں تم کو پڑھا سکتا ہوں، تمہارا مستقبل سنوارنے میں تمہاری مدد کر سکتا ہوں، تمہیں پیار دے سکتا ہوں مگر شادی نہیں کر سکتا۔ اس پر بھی راحیلہ کے پیار میں کمی نہ ہوئی۔ دراصل وہ محبت کی بھوکی تھی۔
ساحر بھائی کیا کوئی بھی اس کی غمگساری کرتا، وہ اس کا دامن تھام لیتی۔وہ متواتر رات کو بھائی کی بیٹھک میں آتی رہی۔ ایک رات وہ حسب معمول بھائی کی کھڑکی کے پاس آئی تو اس کی ماں نے اسے دیکھ لیا اور میرے بھائی کو نہیں دیکھا۔
وہ اپنے بستر پر لیٹے رہے کیونکہ ساتھ والی چار پائی پر اس رات گرمی کی وجہ سے اباجی لیٹے ہوئے تھے۔ بھائی نے ہاتھ کے اشارے سے اسے واپس جانے کو کہا۔ وہ مڑی، اپنے پیچھے ماں کو دیکھا اور واپس گھر میں چلی گئی۔
رات کو ماں نے اسے نجانے کیا کیا باتیں سنائیں۔ صبح وہ پھر کھڑ کی میں آئی، اس کی ماں سورہی تھی۔ اباجی بیٹھک سے گھر میں آگئے تھے۔ راحیلہ نے ساحر کو بتایا کہ ماں آج ہمارے رشتہ داروں کو بلانے جائے گی۔
نجانے کیا ہنگامہ ہونے والا ہے، تم جلدی بند و بست کرو ورنہ میں مر جائوں گی۔ بھائی نے اسے محض تسلی دی۔ دوسرے دن ان کے گھر بہت شور ہوا۔ میرے والد علی الصباح گائوں روانہ ہو گئے تھے، اس لئے بات میرے والد کے آنے تک روک دی گئی تھی۔
ساحر بھی ڈیوٹی پر چلے گئے۔ جب واپس آئے تو گھر میں اینٹیں آئی ہوئی تھیں۔ میری بہن نے بتایا تمہارے کرتوتوں کی وجہ سے کھڑ کی چنی جارہی ہے۔ ابا جان آئے تو پڑوسن نے ہمارے گھر آکر ہنگامہ کیا۔ ابا نے بھائی کو گھر سے نکال دیا، وہ ایک دوست کے گھر چلا گیا، جو کرایے کے گھر میں اکیلا رہتا تھا۔
بھائی نے دفتر سے دو دن کی چھٹی لے لی۔ ادھر راحیلہ کے ساتھ اس کی سوتیلی ماں نے بہت بر اسلوک کیا، سارے محلے میں اس کو بد نام کر دیا مگر ہماری ماں تو سگی تھی۔ وہ بھائی کو سمجھانے ان کے دوست کے گھر چلی گئیں۔
کہا کہ تمہارے والد نے غصے میں تم کو گھر سے نکلنے کا کہہ دیا تھا، تم واپس چلو اور باپ سے معافی مانگو۔ ماموں بھی امی کے ساتھ تھے ، انہوں نے بھی سمجھایا کہ ماں باپ کا دل نہیں دکھانا چاہئے لیکن مجھے تو راحیلہ کا زیادہ دکھ تھا اور یہ بات بھائی ساحر کو بھی بری طرح تڑ پارہی تھی کہ نجانے اس کی ماں نے اس پر کتنے ستم ڈھائے ہوں گے۔
بھائی گھر تو نہیں آئے لیکن وہ بے سکون تھے۔ ان سے رہا نہ گیا اور ایک رات وہ راحیلہ کے کمرے کی کھڑکی کے پاس گلی میں آکر کھڑے ہو گئے۔ وہ بھی جاگ رہی تھی اور رور ہی ھی۔ بھائی نے کھٹڑ کی پر انگلی سے ہلکا سا مخصوص کھٹ کا کیا تو راحیلہ نے جھٹ کھڑ کی کھول دی۔
اس نے سر گوشیوں میں بتایا کہ اس کی ماں نے اس کے ساتھ بہت برا سلوک کیا ہے حتی کہ سوتیلے ماموں نے بھی اسے مارا پیٹا ہے۔ یہ کہہ کر وہ زار و قطار رونے لگی۔ اس وقت ساحر کو خیال آیا کہ جب یہ لڑکی میری خاطر اتنی بد نام ہو گئی ہے تو پھر کیوں نہ میں ہی اس سے شادی کرلوں۔
باپ نے تو مجھے گھر سے نکال ہی دیا ہے۔ یوں اس نے کھڑے کھڑے، بغیر سوچے سمجھے ، یہ عجیب و غریب فیصلہ کر لیا کہ میں اس وقت راحیلہ کو لے کر کہیں دور نکل جائوں۔ اس نے راحیلہ سے کہا کہ ایک جوڑا اٹھالو اور برقعہ اوڑھ لو ورنہ ایسے ہی چادر لپیٹ کر باہر نکل آئو۔
میں آج صبح پو پھٹنے سے پہلے ہی تم سے نکاح کر لوں گا۔ راحیلہ بھی زندگی سے تنگ تھی۔ گھر والوں کے سلوک نے اس کی روح کو گھائل کر دیا تھا۔ وہ گھر سے نکل کھڑی ہوئی۔ نہ اس نے کچھ سوچا سمجھا، نہ میرے بھائی نے جبکہ اس وقت اس کی جیب میں ایک ہزار روپے تھے۔
یہ دونوں سیدھے ریلوے اسٹیشن چلے گئے۔ رات کی گاڑی لاہور جارہی تھی۔ انہوں نے ٹکٹ لیا اور اس میں سوار ہو گئے۔ جب گاڑی شہر کی حدود سے کچھ دور نکل آئی، تب عقل نے جھنجھوڑا اور بھائی نے سوچا کہ یہ میں نے کیا کیا؟
میری منزل کیا ہے اور میں کہاں جائوں گا ؟ وہ سوچوں میں گم تھے۔ راحیلہ کا سوتیلا ماموں پولیس آفیسر تھا۔ یہ لوگ یقیناً میرا پیچھا کریں گے اور مجھے کہیں کا نہ چھوڑیں گے۔اب بھیانک انجام سامنے تھا۔ کہیں جائے پناہ نہ تھی۔
راحیلہ بچاری بھائی کے ساتھ دیکی بیٹھی تھی۔ اس کے چہرے پر سکون تھا، اپنے انجام سے بے خبر سورہی تھی۔ وہ بھیا کے ساتھ سے شاید یہ سمجھ رہی تھی کہ اس کے دکھ تمام ہوئے اور اب اس کا کوئی کچھ نہ بگاڑ سکے گا۔ وہ عورت تھی، جس کو بزدل کہتے ہیں مگر ہمت والی نکلی۔
جب ساحر نے اسے پکارا تو اس نے اس کا ساتھ دیا اور اس کی آواز پر اپنی مشکلات اور ناگواریوں کے باوجود لبیک کہا اور بھائی جو ایک مرد تھا آنے والی مشکلات کے خیال سے اس کی مردانگی نے ہتھیار ڈال دیئے –
اور جو نہی اگلے اسٹیشن پر گاڑی رکی اور اس نے راحیلہ کو محو خواب پایا تو مستقبل کے اندیشوں سے ڈر کر اس کو تنہا رستے میں چھوڑ دیا اور خود گاڑی سے اتر گیا۔ گاڑی روانہ ہو گئی اور اس میں وہ بے خبر مسافر بھی گیا، جس کی منزل ساحر بھائی تھے ، جن کے بغیر یہ لڑکی بالکل تنہا اور بے سہارا تھی۔
جس کے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہ تھی۔ وہ بالکل خالی ہاتھ اور تہی دامن تھی۔ اب آگے کی سینیئے۔ بھائی نے مجھے بتایا کہ وہاں سے وہ سیدھے لاری اڈے آئے اور صبح ہونے سے پہلے ہی واپس اپنے دوست کے گھر پہنچ گئے، جہاں وہ رہ رہے تھے۔
صبح ہی صبح ہمارے والد ، ماموں اور راحیلہ کے ماموں وہاں اور غصے میں دروازہ پیٹ ڈالا۔ بھائی کے دوست نے اٹھ کر دوازہ کھولا ، بھائی اس وقت اداکاری سے آنکھیں مل رہے تھے۔ وہ ان کو دوست کے مکان پر پاکر ہکا بکا رہ گئے کہ یہ تو یہاں ہے، پھر راحیلہ کہاں گئی ہے ؟
سب ہی ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھ رہے تھے اور ساحر بھائی انجان بنے کھڑے تھے۔ وہ لوگ مکان کی تلاشی لے کر لوٹ گئے۔ محلے میں باتیں ہونے لگیں کہ سوتیلی ماں سچ کہتی تھی راحیلہ تھی ہی خراب لڑکی… نجانے کس کس سے تعلق تھا اور کس کے ساتھ گھر سے بھاگ گئی ہے۔
میری ماں نے والد کو سمجھایا کہ ناحق تم نے اپنے بیٹے کو گھر سے نکالا۔ وہ کسی کے در پر پڑا ہوا ہے۔ وہ تو اسے لے کر نہیں بھاگا۔ وہ کسی اور کے ساتھ گئی ہے ، اب جانو اور بیٹے کو گھر لے آئو ، یوں بھائی سر خرو ہو کر گھر لوٹ آئے، مگر ان کا ضمیر کچھ کے لگارہا۔
انسان جب بغیر سوچے سمجھے کوئی ایسا قدم اٹھاتا ہے جو معاشرے کی نظرں میں ناپسندیدہ ہوتا ہے، تو پہلے پہل اس کو احساس نہیں ہوتا کہ اس کا انجام اسے بھگتنا پڑے گا۔ بعد میں جب بری گھڑی آجاتی ہے تو عقل کے دروازے کھلتے ہیں ، تب کچھ لوگ اپنی ذات کی پروا کئے بغیر حالات کا مقابلہ کرتے ہیں۔
ساتھی ساتھ ہو تو اس کو تنہا نہیں چھوڑتے ، اس کو ذلت ورسوائی کے حوالے کرنے کی بجائے وعدہ نبھاتے ہیں، لیکن کچھ ایسے کم ہمت اور بزدل ہوتے ہیں کہ اپنا دامن بچا لیتے ہیں –
اور دوسرے کو ذلت کے گڑھے میں دھکیل کر ستھرے اور پاک صاف بن کر معاشرے کی نظروں میں بے قصور اور معزز رہنے کی خاطر اپنے ہی ضمیر کا خون کر ڈالتے ہیں۔ ساحر بھائی بھی بزدل تھے۔
برے وقت کے ساتھی نہ تھے، تبھی تو ایک معصوم لڑکی جو اپنے گھر کے حالات اور سوتیلی ماں کے ظلم سے تنگ آکر ان کے کہنے پر گھر سے نکلی تھی، پھر کبھی اس کو باپ کی چھت تلے لوٹ آنا نصیب نہ ہو سکا۔
آج نجانے وہ کہاں اور کس حال میں ہو گی ؟ جب یہ بات سوچتی ہوں تو دل میں درد سا ہونے لگتا ہے۔ میرا بھائی بے شک اس معصوم لڑکی کو بھول گیا ہو مگر میں راحیلہ کو آج تک نہیں بھول سکی۔ کیسے بھلائوں اسے …!