نیک اولاد
ثمرینہ نماز پڑھ لو، قضا ہورہی ہے۔ امی نے بارہ سالہ ثمرینہ کو آواز دیتے ہوئے نماز کی تاکید کی۔ ثمرینہ چونکہ اسکول کا ہوم ورک کر رہی تھی اس لئے اسے اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے زیادہ ٹائم ہو گیا، جس پر اس کی امی بانو سخت خفا ہوئیں اور ثمرینہ کو سمجھاتے ہوئے کہا۔
”بیٹا ! نماز وقت پر ادا کرنے کا زیادہ ثواب ملتا ہے ! اس لئے اذان کے فورا بعد نماز کے لیے کھڑی ہو جایا کرو۔“ جی امی ! ماں کو جواب دے کر ثمرینہ وضو کرنے چلی گئی۔
ثمرینہ کی امی بانو نے اپنے بچوں کو بچپن سے ہی ہر بات میں گناہ اور ثواب کا فرق خوب اچھی طرح سمجھا دیا تھا-
ثمرینہ جانتی تھی کہ جھوٹ بولنا اور گالی دینا گناہ ہے۔ بڑوں سے بد تمیزی نہیں کرتے۔ پانی کھڑے ہو کر نہیں پیتے۔ دوسروں کی مدد کر نا ثواب ہے۔
جھوٹ بولنا، غیبت کرنا گناہ ہے اور بھی بہت ساری ایسی باتیں تھیں جن سے وہ اور اس کا بڑا بھائی ہمیشہ بچنے کی کوشش کیا کرتے ۔
ان کی اس اچھی تربیت پر خاندان بھر میں بانو بیگم کو سراہا جاتا جس پر وہ خوب خوش ہوا کر تیں اور اپنے بچوں پر انہیں فخر محسوس ہوتا۔ آج تین دن ہو گئے تھے ، اماں صفیہ کام پر نہیں آئی تھی اور بانو کیلے سارے گھر کا کام کر کے نڈھال پڑی تھیں۔
بانو نے تو اپنی زندگی میں کبھی برتن نہ دھوۓ تھے ، یہاں تو صفائی کے ساتھ ساتھ کپڑے استری کرنا، اٹا گوندنا اور روٹی پکانا بھی شامل تھا تو بھلا کیسے نہ تھکتیں ، ایسے میں انہیں صفیہ پر شدید غصہ تھا، جو بنا کچھ بتائے غائب تھی –
ر آج تو کپڑوں کا ڈھیر بھی دھونے کو پڑا تھا، واشنگ مشین لگانے کا سوچ کر ہی بانو کے ہاتھ پاؤں پھول رہے تھے۔ جب تھکی تھکی اماں صفیہ ان کے گھر کے دروازے سے اندر داخل ہوئیں جنہیں دیکھتے ہی بانو غصہ سے ان پر برس پڑیں۔
آپ کہاں غائب تھیں تین دن سے بنا کسی پیشگی اطلاع کے ؟ طبیعت خراب تھی۔ نقاہت زدہ آواز میں جواب دے کر اماں صفیہ کپڑوں کی گٹھڑی کی جانب بڑھیں، جب غصہ میں بانو نے چلا کر کہا۔ ایک تو ہر دو دن بعد آپ بیمار ہو جاتی ہیں پھر جب کام پر آتی ہیں تو جان بوجھ کر آواز حلق میں پھنسا کر بولتی ہیں۔ “
بانو کی آواز پر اماں صفیہ نے انہیں دیکھا اور آہستہ آواز میں کہنا چاہا۔ بیٹا میں سچ کہہ رہی ہوں آپ …..! بس رہنے دیں، میں آپ کے سارے سچ جانتی ہوں۔ غصہ میں بانو نے اماں کی بات کاٹ دی اور ان کی بات بالکل نہ سنی۔
کچھ دور بیٹھی ثمرینہ نے ایک نظر اپنی ماں پر ڈالی، جن کا چہرہ غصہ کی شدت سے لال بھبوکا ہو رہا تھا، اب اس نے دوسری نظر اماں صفیہ کو دیکھا تو اسے ایسا لگا ، جیسے اماں صفیہ رورہی ہوں ۔
ثمرینہ کو بہت دکھ ہوا، وہ اپنی جگہ سے اٹھی اور امی کے پیچھے ہی کچن میں آگئی، جہاں بانو گوشت بھونتے ہوئے دیگچی میں تیز تیز چمچہ چلارہی تھیں۔ ثمرینہ نے ان کے پاس جا کر آہستہ سے کہا۔ اتنا غصہ کیوں کر رہی ہیں، آپ کا بی پی بڑھ جائے گا۔
جب کام والیاں ہم جیسوں کو بیوقوف بنانے لگیں تو غصہ آنا لازمی ہے۔ ہماری اسلامیات کی استانی نے بتایا تھا کہ غصہ کی حالت میں خود پر قابو پانا بھی ثواب ہے جس سے اللہ تعالی خوش ہوتا ہے اور اس کا اجر بھی دیتا ہے۔
بانو چونکی۔ ثمرینہ کہہ رہی تھی۔ اگر گھر میں کام کرنے والا بزرگ ہو تو اس کی عزت اپنے بڑوں جیسی کرنا چاہیے ، یہ بھی حقوق العباد میں شامل ہے اور آپ تو ماشاء اللہ سب جانتی ہیں کہ دوسروں کا دل دکھانا بھی گناہ ہے، جو آپ نے آج اماں صفیہ کا دکھا کر کیا ہے ۔
اس لئے آپ کو چاہیے کہ اماں سے معافی مانگ لیں تا کہ دنیا میں ہی حساب برابر ہو جائے اور آپ کو آخرت میں اللہ تعالی کے سامنے جواب دہ نہ ہو نا پڑے۔ اتنا کہہ کر ثمرینہ کچن سے باہر نکل گئی لیکن بانو کو آئینہ دکھا گئی تھی-
جبکہ چولہا بند کرتی بانو کے دل کو یہ سوچ کر خوشی محسوس ہوئی کہ ان کی اولاد حقوق العباد کی اہمیت کو سمجھتی ہے یہ سچ ہے کہ نیک اولاد بھی صدقہ جاریہ ہوتی ہے –
آج اس کی بیٹی نے اسے ہدایت کا جو راستہ دکھایا تھا، وہ قابل تعریف تھا، جس کے لئے وہ دل ہی دل میں اپنی بیٹی کا شکریہ ادا کرتی ہوئی کچن سے باہر نکل آئی تاکہ اماں صفیہ سے معافی مانگ کر اپنے اللہ کو راضی کر سکے۔