Khair Ki Tajarat – UrduQissa.com

Spread the love

خیر کی تجارت

اس وقت کون آ گیا ؟ مسلسل بجتی گھنٹی کی آواز پر ، موبائل پر اپنی بہن سے بات کرتی ، عارفہ نے گھڑی کی طرف دیکھا۔ دوپہر کے تین بج رہے تھے۔ جلدی سے فون بند کر کے عارفہ دروازے کی طرف بڑھی۔ کون ہے؟ عارفہ نے دروازے میں بنی چھوٹی کھڑکی کھول کر باہر جھانکا۔ گھر کے باہر بنے، سیمنٹ کے تھڑے پر ایک خستہ حال بوڑھی عورت بیٹھی ہوئی تھی۔ عارفہ کی آواز پر بوڑھی عورت نے سر گھمایا اور اسے دیکھ کر خوش دلی سے مسکرادی۔ اماں! کیا چاہیے؟

اتنی گرمی میں بوڑھی عورت کو وہاں بیٹھا دیکھ کر عارفہ کا دل خود ہی نرم ہو گیا تھا۔ بیٹی راشن لینے آئی ہوں۔ سنا ہے آپ لوگ راشن بانٹ رہے ہیں؟ بوڑھی عورت نے امید بھرے انداز میں کہا۔ اماں ! آپ کو غلطی ہوئی ہے۔ راشن بانٹنے والا گھر ہمارا نہیں ہے۔ محلے میں پتا کر لیں ۔ عارفہ نے سنجیدگی سے کہا۔ اچھا اماں نے مایوسی سے کافی لمبی سانس لی تھی۔ میری ہمسائی بتا رہی تھی کہ بیماری ( کرونا ) کی وجہ سے یہاں راشن بانٹ رہے ہیں۔

اسی لیے آئی تھی مگر اماں لاٹھی کے سہارے بمشکل کھڑی ہوئی۔ عارفہ کو اس کا مایوس ہو کر خالی ہاتھ جانا اچھا نہیں لگا تھا- اماں! ایک منٹ رکیں۔ عارفہ نے کہا اور پھر تیزی سے واپس چلی گئی۔ اماں! یہ کچھ پیسے رکھ لیں ۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی آگے کسی گھر میں راشن بانٹ رہا ہو۔ آپ پتا کر لیں۔ عارفہ نے پانچ سو کا نوٹ اماں کو پکڑاتے ہوئے کہا تو اماں کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا۔ بہت شکریہ بیٹی ! اللہ بہت خوشیاں رہے۔

اماں نے جلدی سے پیسے پکڑے اور لاٹھی کے سہارے چلتی چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی وہاں سے چلی گئی۔ عارفہ نے گہری سانس لی۔ مجبوری بھی انسان کو کیسے در در بھٹکاتی ہے۔ عارفہ نے گیٹ بند کیا اور اندر چلی گئی-نسرین تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے؟ آج صفائی کس طرح کر رہی ہو؟ عارفہ نے جھاڑو دیتی نسرین کو ٹوکا تو وہ جھاڑو چھوڑ کر ، فرش پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئی۔ باجی ساری رات نیند نہیں آئی اور اب پنکھے کی پرسکون ہوا میں، آنکھیں بند ہو رہی ہیں۔

نسرین نے اپنی آنکھیں ملتے ہوئے کہا۔ حیرت ہے۔ ورنہ جتنا تم کام کرتی ہو۔ تھکاوٹ سے نیند تو اچھی آنی چاہیے۔ عارفہ نے مسکرا کر کہا۔ باجی نیند تو آرہی تھی مگر بجلی نہیں تھی۔ اب گرمی میں کیسے سوتی؟ نسرین نے منہ بنا کر کہا۔ بجلی کیوں نہیں تھی ؟ عارفہ نے سرسری انداز میں سوال کیا۔ باجی ! مالک مکان نے ہماری بجلی بند کردی ہے۔ کیونکہ ہم نے ابھی تک بل نہیں دیا ۔ نسرین نے پریشانی سے کہا۔ باجی ! ہم جس مکان میں رہتے ہیں۔

ہمیں نیچے بڑا سا کمرا چھوٹا واش روم، اور چھوٹا سا صحن ملا ہوا ہے۔ جس کے ایک کونے میں ہم کھانا پکاتے ہیں اور دوسرے کونے میں کپڑے دھو کر وہیں تاروں پر ڈالتے ہیں۔ ایک کمرے میں صرف پنکھا ہے۔ جس کا بل دس ہزار آیا ہے۔ اب آپ بتائیں کہ ہم غریب لوگ دس ہزار کہاں سے دیں ؟ نسرین نے بے چارگی سے کہا۔ اتنا زیادہ بل تمہارے مالک مکان نے میٹر کے ساتھ دو نمبری کی ہے۔ ضرور اپنا لوڈ بھی تم لوگوں کے میٹر پر ڈالا ہوا ہے ۔ عارفہ نے سمجھ کر سر ہلایا۔

باجی میٹر تو ایک ہی ہے ۔ مالک مکان کہتا ہے کہ بہت مسئلہ ہے تو اپنا میٹر الگ لگوالو۔ ایک میٹر پرآدھا بل تو دینا ہی ہوگا۔ نسرین نے منہ بنا کر کہا۔ نسرین کے مالک مکان ، سردیوں میں بھی گیزر اور ہیٹر چلانے کا آدھا بل ان سے لیتے تھے حالانکہ یہ دونوں چیزیں نسرین استعمال نہیں کرتی تھی۔ کیونکہ نسرین اور اس کی پندرہ سال کی بیٹی صبح کام پہ نکلتیں اور شام ڈھلے واپس آتی تھیں۔ گیزر اور ہیٹر کی شکل بھی انہوں نے نہیں دیکھی تھی۔ نسرین کا شوہر بھی صبح گیا، رات کو گھر واپس آتا تھا۔

سارا دن نہ گیس استعمال ہوتی تھی اور نہ ہی بجلی مگر پھر بھی بل زیادہ آتا اورآدھا بل نسرین کو ہر حال میں دینا پڑتا تھا۔ باجی بل تو بیس ہزار ہے۔ آدھا بل ہم نے دینا ہے۔ نسرین نے منہ بنا کر کہا۔ نسرین انہیں کتنی بار سمجھایا ہے کہ یہ مکان چھوڑ دو تمہارے مالک مکان اچھے لوگ نہیں ہیں۔ عارفہ نے سنجیدگی سے کہا۔ باحی، ٹھیک کہ رہی ہیں۔ اس مکان کے تین حصے ہیں۔

Also Read  Aqal Mand Tota aur Sust Bili

سب سے نیچے والے حصے میں ہم رہتے ہیں، درمیان والے میں مالک مکان بیوی اور ایک بیٹے، بہو اور ان کے چار بچوں کے ساتھ رہتے ہیں جبکہ تیسری منزل پہ ایک اور بیٹا اپنی بیوی اور تین بچوں کے ساتھ رہتا ہے۔ دونوں بیٹوں نے کولر لگائے ہوئے ہیں۔ جو دن رات چلتے ہیں۔ بجلی کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں مگر بل آدھا آدھا کرتے ہیں۔ باحی سردیوں میں تو ہمیں شام کو سوئی گیس کی شکل دیکھنا بھی نصیب نہیں ہوتی ۔ جبکہ اوپر آتی رہتی ہے۔

شاید کوئی مشین ہے جس سے ہماری سوئی گیس بھی کھینچ لیتے ہیں۔ نسرین نے ہمیشہ کی طرح اپنا دکھڑا رویا تو عارفہ سر ہلا کر رہ گئی۔ نسرین اس کے گھر پچھلے کئی سالوں سے کام کر رہی تھی۔ بہت ایمان دار اور شریف تھی۔ اپنے کام سے کام رکھنے والی۔ اس لیے عارفہ بھی اس کا خاص خیال رکھتی تھی۔ اپنے شوہر سے بات کرو کہ یہ مکان چھوڑ دے۔ عارفہ نے سنجیدگی سے کہا۔ باجی، کیسے چھوڑ دیں۔ ہمارے پاس ایڈوانس رقم دینے کے لیے پیسے نہیں ہیں ۔ نسرین نے کہا۔

یہاں بھی تو ایڈوانس رقم دی ہوئی نا ! اس میں کچھ پیسے ڈال کر کوئی اور گھر لے لو۔ عارفہ نے مشورہ دیا۔ باجی ! یہاں مالک مکان نے ایڈوانس نہیں لیا تھا۔ کرایہ بھی مناسب ہے۔ ایک کمرے کا چھ ہزار اب اتنے کرائے میں کوئی اور گھر نہیں ملتا ہے۔ نسرین نے کہا۔ کرایہ تھوڑا ہے۔ ایڈوانس نہیں لیا مگر اس سے زیادہ تم لوگوں سے بل کی مد میں نکلوا لیا ہے۔ حد ہے بھئی عارفہ نے منہ بنا کر کہا تو نسرین گہری سانس لے کر اٹھی اور دوبارہ جھاڑو دینے لگی-کیسی ہو بیٹی؟

یہاں سے گزر رہی تھی سوچا حال پوچھ لوں۔ پچھلی بار آپ نے جو پیسے دیے تھے میں نے ان سے اپنی دوائی لے لی تھی ۔ دیکھیں، میری دوائی کتنی مہنگی آتی ہیں ۔ اگلے مہینے پھر وہ اماں دوائی کا پرچا تھامے، عارفہ کے گھر کے باہر موجود تھی۔ عارفہ سمجھ گئی۔ اس نے حسب توفیق کچھ پیسے اسے دیے اماں خوش ہوگئی۔ اماں ! آپ ہر مہینے کی پانچ تاریخ کو چکر لگا لیا کریں ۔ عارفہ نے مسکرا کر کہا تو اماں کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا۔

اب ہر مہینے کی پانچ تاریخ کے آس پاس، اماں باقاعدگی سے عارفہ کے گھر آنے لگی۔ عارفہ نے اپنے شوہر سے بات کر کے حسب توفیق اس کا مہینہ لگا دیا تھا۔ اماں کو عارفہ کے گھر کے علاوہ آس پاس گھروں سے بھی لوگ پیسے دیتے تھے۔ کوئی سو روپیہ دے دیتا، کوئی دوسو، کوئی پانچ سو، کوئی ہزار ! اماں مہینے کے پہلے ہفتے میں اس محلے کا چکر لگاتی اور اچھے خاصے پیسے، کھانے پینے کی چیزیں، کپڑے وغیرہ جمع کر کے لے جاتی تھی۔

اکثر اماں کے ساتھ اس کا کوئی پوتا یا پوتی بھی آجاتے، جن کی حالت اتنی خراب نہیں لگتی تھی جتنی اماں کی تھی-بیٹی میرے سارے کپڑے پھٹ گئے ہیں۔ اپنا کوئی سوٹ تو دے دو۔ ایک دن اماں نے کہا تو عارفہ سر ہلا کر واپس اندر چلی گئی اور اپنا ایک استعمال شدہ مگر اچھی حالت کا سوٹ نکال کر اماں کو دیا تو وہ خوش ہو کر دعائیں دینے گئی۔ ایک بار اماں آئی تو اس کے ہاتھ میں دوائیوں کے دو تین پرچے تھے۔ بیٹی ڈاکٹر نے آنکھوں کا آپریشن بتایا ہے۔ سب تھوڑی تھوڑی مدد کر رہے ہیں۔

اماں نے ڈاکٹر کا لکھا نسخہ اسے دکھاتے ہوئے کہا تو عارفہ گہری سانس لے کر رہ گئی۔ روز بہ روز اماں کی ضرورتیں بڑھتی جارہی تھیں۔ اب اماں مہینے کے درمیان میں بھی پیسے مانگنے آجاتی ۔ پہلے کچھ عرصہ، عارفہ مروت میں انکار نہ کر سکی مگر عارفہ کے لیے بار باراس طرح پیسے نکالنا ممکن نہیں تھا۔ اماں کے علاوہ اور بھی بہت سے قریبی سفید پوش لوگ ان کی مدد کے منتظر تھے۔ اماں ! میرے لیے اس سے زیادہ مدد کرنا ممکن نہیں ہے۔

ایک دن عارفہ نے نرم لہجے میں سنجیدگی سے کہا تو اماں سمجھ گئی۔ اس دن کے بعد سے اماں نے اپنی ضرورتوں کی لسٹ ، عارفہ کو دکھانا چھوڑ دی تھی کیونکہ عارفہ اماں کے بغیر کہے پیسوں کے علاوہ کھانے پینے کی اشیاء کپڑے وغیرہ دیتی رہتی تھی-نسرین اتنا سارا راشن کہاں سے لائی ہو؟ نسرین اور اس کی بیٹی کام پر آئیں تو دونوں نے راشن کے تھیلے اٹھائے ہوئے تھے۔ عارفہ نے حیران ہو کر سوال کیا۔ باجی! اس گلی میں لال گیٹ والا گھر ہے نا وہ ہر مہینے غریبوں میں راشن بانٹتے ہیں۔

Also Read  Mullah Nasiruddin Funny Stories Part 2

پچھلے کئی مہینوں سے ہمارے مالک مکان ان سے راشن لے کر جا رہے تھے۔ میرے بندے نے کل بابا جی سے پوچھا تو انہوں نے اس گھر کے بارے میں بتایا اس بار ہم بھی راشن لینے پہنچ گئے۔ نسرین نے خوشی سے تفصیل بتائی۔ تمہاری تو مجبوری سمجھ میں آتی ہے مگر تمہارے مالک مکان راشن لینے کیوں آتے ہیں؟ عارفہ نے حیران ہو کر سوال کیا تو نسرین ہنس پڑی۔ باجی ! آپ بھی بہت بھولی ہیں۔ اپنا چھوٹا سا گھر ہونے سے کیا ہوتا ہے؟

پیٹ کی آگ اور ضرورتیں بھی تو ہوتی ہیں نا! مالک مکان خود تو میاں بیوی بوڑھے ہیں۔ جن کی دوائی کا خرچہ بھی کافی ہے۔ اس وجہ سے انہوں نے نیچے والا کمرا کرائے پر دیا ہے۔ بیٹے کچھ خاص کام نہیں کرتے۔ کماتے بھی ہیں تو اپنے بیوی بچوں کا پیٹ بھرتے ہیں۔ مائی بابا کا گزارہ، کرائے پہ یا لوگوں کی دی امداد پر ہوتا ہے۔ ویسے بھی آج کل کے حالات میں تو اچھے بھلے لوگ مجبور اور بے بس ہو کر گھروں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ نسرین نے کہا تو عارفہ نے سر ہلایا۔

نسرین کی بات بالکل ٹھیک تھی کہ آج کل تو بہت سے سفید پوش لوگ، کام یا کاروبار بند ہونے کی وجہ سے پریشان حال ہیں۔ یہ تو پھر نچلے طبقے کے غریب لوگ ہیں۔ جن کے روزگار کا کوئی مناسب ذریعہ نہیں ہوتا ہے-اماں کیا ہوا؟ کیوں رورہی ہو ؟ اگلے مہینے اماں آئی تو بار بار اپنے میلے ڈوپٹے سے آنسو صاف کررہی ہی۔ بس بیٹی ! کیا بتاؤں زندگی بہت مشکل ہو گئی ہے۔ اولاد نکمی اور بے حس نکلی۔ اللہ کی طرف سے آزمائش بھی ختم نہیں ہوتی۔

پچھلے مہینے بچے کو قرض لے کر رکشا لے کر دیا مگر رکشے کی ٹرک سے ٹکر ہوگئی۔ بیٹے کی جان تو بچ گئی مگرچوٹیں بہت آئیں۔ رکشہ بھی تباہ ہو گیا۔ الٹا قرض ہی سر پر چڑھ گیا۔ دو سال پہلے اچھا بھلا، ہم لوگ بھینس کا دودھ بیچ کر اپنا گزارہ کر رہے تھے مگر وہ بھی مر گئی۔ آمدنی کا ایک ذریعہ بند ہو گیا۔ کچھ دن پہلے بڑا پوتا پتنگ اڑاتا ہوا چھت سے گر کر ٹانگ تڑوا بیٹھا۔ اللہ کا شکر ہے کہ جان بچ گئی مگر اس کے علاج کے لیے بہت خوار ہونا پڑا۔ اب میرا خاوند بیمار ہے۔ ہسپتال میں داخل ہے۔

اماں بتاتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔ عارفہ کا دل اس کے دکھ پر تڑپ اٹھا۔ اماں! اللہ بہتر کرے گا۔ پریشان مت ہو۔ عارفہ نے اس بار پہلے سے زیادہ پیسے اماں کو دیے تو اماں دعائیں دیتی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔ اماں کے جانے کے بعد بھی عارفہ اس کے بارے میں سوچتی رہی-باجی ! کل میں کام پر نہیں آؤں گی ۔ صفائی کرتے ہوئے کہا۔ کیوں؟ عارفہ نے حیرانی سے سوال کیا۔ باجی ہمیں نیا کمرا کرائے پر مل گیا ہے۔ میرے خاوند کا دوست ہے۔ اس کے گھر کا دوسرا حصہ خالی ہے۔

ایک بڑا اور ہوا دار کمرا ہے۔ باورچی خانہ بھی الگ سے بنا ہوا ہے۔ چھت پہ بھی ہم جاسکتے ہیں۔ کپڑے تو ہم چھت پہ ہی دھویا کریں گے۔ چلو شکر ہے۔ کہ تمہاری بھی ان مالک مکان سے جان چھوٹ جائے گی ۔ عارفہ نے مسکرا کر کہا۔ جی باجی ! دو سال بہت مشکل سے گزارے ہیں مائی بابا بہت لالچی ہیں ۔ دودھ بیچا تو پانی ڈال گر کبھی خالص نہیں دیا اور وہ بھی اتنا مہنگا بجلی اور گیس کا بل ہم سے زیادہ لیتے تھے۔ حالانکہ ان کے تین خاندان آباد تھے اور ہم تین لوگ۔

شکر ہے کہ اس گھر میں ہمارا میٹرا الگ ہے۔ نسرین نے مطمئن انداز میں کہا۔ ایڈوانس کا کیا کروگی ؟ عارفہ نے پوچھا۔ باجی میرے خاوند نے اپنے مالک سے کچھ پیسے ادھار لیے ہیں۔ جن میں سے آدھے ہم مکان کے ایڈوانس میں دیں گے اور باقی سے سامان اٹھائیں گے۔ ویسے ہمارا کون سا سامان ہے۔ ایک کمرے میں آہی کیا سکتا تھا ؟ نسرین نے مسکرا کر کہا۔ اس دن کام کرتے ہوئے نسرین مسلسل بولتی رہی ۔ نئے گھر میں جانے کی خوشی اس کے چہرے سے عیاں تھی-

ہائے بیٹی کیا بتاؤں ایسی قسمت لے کر پیدا ہوئی ہوں۔ پچھلے دنوں ہمارے گھر چوری ہوگئی۔ ایک دن اماں آئی تو اداسی سے کہنے لگی۔ اماں آپ کے گھر چور کو کیا مل گیا تھا؟ عارفہ نے حیرانی سے سوال کیا۔ بیٹی ! میرے بیٹے کی بیس ہزار کی کمیٹی کی تھی۔ کم بخت مارے وہ ہی لے کر گئے ہیں۔ اماں نے اداسی سے کہا۔ یعنی چور کوئی گھر کا بندہ ہی تھا ؟ عارفہ نے حیرانی سے پوچھا تو اماں نے اثبات میں سر ہلایا۔ ہاں جاننے والا تھا۔ اماں نے گول مول جواب دیا۔

Also Read  Talkh Haqeeqat - UrduQissa.com

عارفہ نے اماں کو پیسے پکڑائے تو اسی وقت نسرین سوکھی روٹیاں اور پلاسٹک کی خالی بوتلوں کا شاپر پکڑ کر چلتی ہوئی قریب آئی تو ایک دم چونک گئی۔ اماں بھی اسے دیکھ کر حیران ہوئی۔ نسرین تم یہاں کام کرتی ہو؟ اماں نے خوشی سے سوال کیا مگر نسرین کا منہ بن گیا تھا۔ اماں! یہاں کیا کر رہی ہو؟ نسرین نے منہ بنا کر سوال کیا۔ تم انہیں جانتی ہو؟ نسرین نے منہ بنا کر سوال کیا۔ جی باجی ! یہ ہی ہماری پرانی مالک مکان ہیں۔ جن کے بارے میں بتاتی رہتی تھی ۔

نسرین نے طنزیہ انداز میں کہا اور اندر چلی گئی۔ اماں کے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔ نسرین کو نئے گھر میں گئے چھ مہینے ہو چکے تھے۔ ان چھ مہینوں میں ایک پنکھے کے ساتھ، اس کا بل گرمی میں بہت کم آیا تھا۔ یعنی پچھلے مالک مکان ، اپنے حصے کا بل بھی ان سے لیتے رہے تھے۔ یہ کچھ مہینے پہلے تک ہماری کرائے دار تھی۔ ان کے جانے کے بعد تو جو بھی کرائے دار آیا، ایک نمبر کا دھو کے باز اور چور نکلا۔ ہمارے گھر چوری بھی کرائے دار کے پندرہ سالہ لڑکے نے کی ہے۔

اماں نے جلدی سے بتایا تو عارفہ گہری سانس لے کر رہ گئی۔ اماں تم نے کبھی سوچا نہیں کہ اپنا مکان، کرائے دار ہوتے ہوئے بھی تم کو در در پر بھٹکنا پڑتا ہے۔ تمہارے۔ اچھے بھلے کام، چلتے کاروبار ختم ہو جاتے ہیں یا ان میں رکاوٹ آجاتی ہے۔ عارفہ نے سنجیدگی سے کہا۔ بس بیٹی قسمت خراب ہے۔ اماں نے گہری سانس لے کر کہا۔ اماں ! ایک بات کہوں؟ عارفہ نے سنجیدگی سے کہا تو اماں نے اثبات میں سر ہلایا۔ نیت کی خرابی کو قسمت پر کبھی بھی نہیں ڈالنا چاہیے۔

بری نیت ، زندگی میں بے سکون ، خیرو برکت خوشی ہر چیز اپنے ساتھ لے جاتی ہے۔ غریب ہونا الگ چیز ہے مگر سب کچھ پاس ہوتے ہوئے بھی خیر و برکت نہ ہونا الگ بات ہے۔ اگر ایسا معاملہ زندگی میں پیش آئے تو استغفار پڑھنا شروع کر دو اور اپنے روزانہ کے معمولات پر گہری نگاہ رکھو۔ کہیں کوئی تکلیف، دکھ، دھوکا، جھوٹ ، بدنیتی ، لالچ تو خیر کے راستے میں نہیں آ رہا۔ ! عارفہ نے نرمی سے کہا۔ خیر کیسے ملتی ہے؟ اماں نے حیرانی سے سوال کیا تو عارفہ مسکرادی۔

اللہ سے خیر کی تجارت کرو۔ تمہاری زندگی میں بھی خیر لوٹ آئے گئی۔ لوگوں کے ساتھ دھوکہ کرنے ، انہیں تکلیف پہنچانے سے ناحق زیادتی کرنے سے ، ان سے زیادہ نقصان ہمیں خود اٹھانا پڑتا ہے۔ وہ لوگ تو وقتی طور پر نقصان یا تکلیف اٹھا کر اپنے راستے پر چل دیں گے مگر ہمارا کیا برا عمل اور سوچ، ہمیشہ کے لیے تکلیف اور مصیبت کا باعث بن جاتا ہے۔ امید ہے کہ تم میری بات سمجھ گئی ہوگی ۔

عارفہ نے سنجیدگی سے کہا تو اماں نے بھیگی آنکھوں کے ساتھ، پورچ میں وائپر لگا کر پانی نکالتی نسرین کی طرف دیکھا۔ نسرین نے بھی سر اٹھا کر اماں کی طرف دیکھا اور پھر دوبارہ اپنا کام کرنے لگی-اس دن کے بعد ، اماں کبھی عارفہ سے مدد مانگنے نہیں آئی بلکہ کافی عرصے کے بعد، ایک دن عارفہ کا شکریہ ادا کرنے ضرور آئی تھی کہ عارفہ کی بتائی خیر کی تجارت نے اس کی زندگی میں خیر کو واپس لوٹانا شروع کر دیا تھا۔

یہ بات تو عارفہ نسرین سے پہلے ہی جان چکی تھی کہ اماں نے نسرین سے کی گئی سب، زیادتیوں کی معافی طلب کی تھی۔ نسرین نے کھلے دل سے معاف کر دیا تھا۔ عارفہ کا یقین خیر کی تجارت پر مزید پختہ ہو گیا تھا۔ کہ خیر کا معاملہ بہت سادہ سا ہے۔ آپ دوسروں کے لیے خیر کا باعث بنیں، کائنات کا ہر ذرہ آپ کے لیے خیر بن جائےگا-


Spread the love

Leave a Comment