گل فروش
دیکھ پگلی تیرے ابا کو راجہ سے بہت پیار ہے۔ وہ تیرتی پھپھو کو کبھی منع نہیں کریں مجھے گے۔ اماں نے آٹا گوندھتے ہوئے، پاس ہی بیٹھی ، ہانڈی میں تیز تیز ڈوئی چلاتی گل سے کہا۔ اونہہ غریبوں کا راجہ! اگر ابا کو اپنے غریب بھانجے سے پیار ہے تو کرتے رہیں مگر دوسروں کی زندگی کیوں خراب کرنا چاہتے ہیں؟
گل نے ہاتھ روک کر کہا۔ اماں نے ایک نظر ہانڈی میں لگتے مسالے پر ڈالی اور پاس پڑے پانی کے برتن میں سے سے چند چھینٹے مسالے میں ڈالے تو شوں کی آواز کے ساتھ تھوڑا دھواں بھی اٹھا ۔ گل منہ پر ہاتھ رکھ کر کھانسنے لگی۔ کیا ہے اماں! جب سب کچھ خود کرنا ہوتا ہے تو مجھے کیوں آواز دیتی ہیں؟
گل کو بہانہ چاہیے تھا، اس لیے فورا وہاں سے اٹھ کر باورچی خانے سے باہر نکل گئی۔ سن لے گل ! تیرا ابا آج کل میں تیری پھپھو سے رشتے کی بات کرنے والا ہے اور تو ہے کہ ۔۔ پگلی ماں ، باپ کے گھر کے لاڈ یہاں تک ہی رہ جاتے ہیں ۔ مانا کہ تیری پھپھو بہت اچھے مزاج کی عورت ہے –
مگر سچ تو یہ ہے کہ اپنی اولاد بھی نکمی ہو تو زیادہ دیرتک ان کے لاڈ نخرے بھی نہیں اٹھائے جاتے۔ اور تو تو بہو بن کے جائے گی ، اس لیے کام سیکھ لے اب نہیں تو سب کہیں گے کہ اکلوتی بیٹی کو کچھ سکھا کر نہیں بھیجا ہے۔ کبھی پھپھو کہیں گی، کبھی لوگ کہیں گے ! اماں میری زندگی کیا ان باتوں کے گرد ہی گھومتی رہے گی؟
مجھے نہیں کرنی شادی وادی ! نہ کسی راجہ سے اور نہ شہزادے ! مجھے بس پڑھنا ہے ۔ ڈھیر سارا ۔۔ ! وہ جیسے ٹی ۔ وی میں لڑکیاں آتی ہیں نا! کتابیں ہاتھ میں پکڑے ، تیزی سے کالج کی سیڑھیاں چڑھتی اور اترتی ہوئی ، نئے اور اچھے کپڑے پہنے ہوئے خوبصورت بال ہوا میں لہراتے ہوئے ہنستی کھلکھلاتی ہوئی ، ہر فکر سے آزاد ۔۔ !
اماں مجھے بھی ایسی زندگی جینی ہے۔ اماں کیا ایسی زندگی ملنا بہت مشکل ہے؟ ہانڈی میں کئی سبزی ڈالتے ہوئے اماں نے گردن موڑ کر صحن میں رکھی چارپائی پر بیٹھی گل کو دیکھا تھا۔ دونوں ٹانگوں کو جھلاتے ، اور چہرہ دونوں ہتھیلیوں میں سجائے ، اپنے تصور میں کھوئی، وہ بہت معصوم لگ رہی تھی۔
اس لمحے اماں کا دل چاہا کہ ان کے پاس کوئی جادو کی چھڑی ہوتی تو وہ اس کی ہر خواہش پلک جھپکتے ہی پوری کر دیتیں مگر وہ سر جھٹک کر ادھورے رہ جانے والے کاموں کی طرف متوجہ ہوئیں۔ تجھے میں اسی لیے پگلی کہتی ہوں ۔ کتنی بار منع کیا ہے کہ زرینہ کے گھر ڈرامے دیکھنے مت جایا کر!
نت نئی چیزیں دیکھ دیکھ کر تیرا دماغ خراب ہوتا ہے۔ زندگی آسان تو کسی کی بھی نہیں ہوتی۔ اماں نے ہمیشہ کی طرح اسے سمجھایا تو وہ سیدھی ہوتے ہوئے گہری سانس لے کر بولی۔ مگر اماں ہماری زندگی تو کچھ زیاده ہی مشکل ہے نا ! اتنی مشکل کم میرے چھوٹے چھوٹے خواب اس چھوٹے اور کچے صحن کی مٹی میں کہیں گر کر گم ہو گئے ہیں۔
کتنا شوق تھا مجھے پڑھنے کا مگر آٹھویں سے آگے پڑھ ہی نہیں سکی۔ گل کے چہرے پر گہری اداسی رقم تھی۔ اماں کے دل کو کچھ ہوا۔ اس سے پہلے کہ اماں کچھ کہتیں ، لکڑی کا دروازہ، زور دار آواز کے ساتھ کھلا۔ اماں اور گل نے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا ۔ ابا تھکے ہوئے قدموں سے سائیکل اندر کر رہا تھا۔
ابا نے سائیکل دیوار کے ساتھ کھڑی کی اور صحن میں بیھٹی گل کو دیکھ کر بے اختیار مسکرا دیا۔ میرے پھولوں میں سے سب سے پیارا اور خوبصورت پھول ہے میری بیٹی؟ ابا نے پاس آکر اس کے سر پر محبت سے ہاتھ پھیرا اور دوسرے ہاتھ میں پکڑا شاپر اس کی طرف بڑھایا۔ کیا لائے ہیں ابا ؟
گل ساری اداسی بھول کر تجس سے لفافے کے اندر جھانکنے لگی۔ برفی سفید برفی کے کچھ ٹکڑے دیکھ کر گل کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا۔ میری بیٹی کو بہت پسند ہے نا ! چل آرام سے بیٹھ کر کھا اور سن ! ابا نے پاس آتی اماں کی طرف دیکھا، اپنی اماں کو بالکل مت دینا اس کے لیے زیادہ میٹھا اچھا نہیں ہے۔
ابا نے شرارت سے کہا تو گل کھلکھلا کر ہنس پڑی جبکہ اماں حیرت سے دونوں باپ بیٹی کو دیکھ رہی تھیں۔ لو بھلا میں نے کب فرمائش کی ہے کسی چیز کی۔ اماں نے منہ بنا کر کہا اور بڑبڑاتے ہوئے روٹی بنانے چلی گئیں ۔ گل پٹر پٹر بولی، ابا کے پاس بیٹھی سارے دن کی روداد سنا رہی تھی ۔
تھکا ہارا ابا مسکراتی نظروں سے اپنی بلبل کو چہکتے ہوئے دیکھنے لگا۔ اچھا اب بس کر ! اپنے ابا کو سکون سے روٹی تو کھانے دے ! اماں نے روٹی کی چنگیر لکڑی کی میز پر رکھی اور سالن لینے چلی گئیں۔ گل جلدی سے اٹھ کر پانی کا جگ اور گلاس لے آئی ۔ تینوں نے سکون سے کھانا کھایا اور اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہوئے دستر خوان سے اٹھ گئے۔
گل ! چائے کا پانی چڑھا دے! اماں نے باورچی خانے کی طرف منہ کر کے آواز لگائی ۔ ابا کھانے کے بعد چائے ضرور پیتے تھے۔ جو زیادہ تر گل ہی بنا کر پیش کرتی تھی۔ جب تک گل چائے بنا کر لائی ، ابا اور اماں کسی بحث میں مصروف ہو چکے تھے۔ گل کو دیکھ کر دونوں چپ ہو گئے۔
گل آبا کے سامنے چائے کا کپ رکھ کر، برفی کا شاپر ہاتھ میں پکڑے واحد کمرے کی طرف طرف چل پڑی۔ اماں اور ابا نے سارے دن کی باتیں کر کے کمرے میں آنا تھا ، گل نے پرانے رسالے میں سے ایک کہانی بہت آرام سے پڑھ لینی تھی ۔ یہ رسالے بھی اسے زرینہ نے دیے تھے۔
گل نے رضائی کھولی اور اس میں گھس کر نیم دراز ہو کر مزے سے برفی کھاتے رسالہ کھول لیا ۔کہانی بہت طویل تھی یا اس کی نیند بہت کچی ۔۔! جب اماں سونے کے لیے کمرے میں آئیں تو گل سو چکی تھی اور پاس ہی رسالہ اوندھا پڑا ہوا تھا۔
سچ میں پگلی ہے یہ! اماں نے مسکراتے ہوئے بوسیدہ رسالہ اٹھا کر بہت احتیاط سے طاق پر رکھا تھا۔ وہ ان پڑھ عورت یہ نہیں جانتی تھی کہ اس پرانے ، بوسیدہ رسالے میں کیا ہے؟ وہ صرف اتنا جانتی تھی کہ ان بوسیدہ اوراق کو ہاتھ میں لیتے ہی گل کے چہرے پر خوشی کے ان گنت رنگ پھیل جاتے تھے۔
میں گیارہ بجے تک راجہ کو بھیجوں گا تب تک یہ گجرے بنا دینا۔ آج مجھے جلدی جانا ہے۔ صبح ہی صبح گاہک آنا شروع ہو جاتے ہیں ۔ قریبی مارکیٹ میں، دہی بھلوں کی مشہور دکان کے سامنے ، ابا پھولوں کا ٹھیلا لگاتا تھا۔ روز کے اتنے پھول بک جاتے تھے کہ ان کی دال روٹی عزت کے ساتھ چل رہی تھی ۔
ابا اور اماں نے ساری زندگی خواہشوں کے بجائے ، ضرورتوں کو پورا کرنے میں گزاری تھی۔ یہ سبق ہی وہ گل کو بھی پڑھانے کی کوشش کرتے تھے مگر انسان پڑھ تو کسی سے بھی لیتا ہے مگر سبق سب سے نہیں سیکھتا ہے۔ ایسا ہی گل کے ساتھ تھا۔ وہ ضدی یا ہٹ دھرم تو نہیں مگر جیتی جاگتی ، سانس لیتی لڑکی ضرور تھی۔
جو اپنی آنکھوں میں نو عمری کے سب سب خواب سجانے کا پورا حق رکھتی تھی۔ گل! دیکھ کر بنا کیا کر رہی ہے؟ گلاب کے پھولوں کے الگ سے بنیں گے اور موتیے کے پھولوں کے الگ سے ان کو ملا کیوں رہی ہے؟ ایک تو پہلے ہی اتنے کم کرنے والے پڑے ہیں- اوپر سے اس لڑکی کی حرکتیں! چھوڑ میں خود کرلوں گی۔
اماں نے جھنجھلا کر اس کے سامنے سے دونوں ٹوکریاں اٹھائی تھیں۔ کیا ہے اماں ! ہر بات پر پابندی کیوں لگاتی ہیں؟ بس میرا دل کرتا ہے کہ دونوں پھولوں کو ملا کر گجرے بناؤں ! بلکہ ڈھیر سارے پھولوں کو ملا دوں۔ ایک دوسرے میں اس طرح ملاؤں کہ سب مل کر ایک نیا پھول بن جائیں ۔
ڈھیر سارے رنگوں کا مختلف خوشبوؤں میں بسا ایک پھول اماں آپ کو پتا ہے کہ دنیا میں اتنے ڈھیر سارے مختلف رنگوں کے پھول ہیں اور ۔۔!! گل نے اپنے دونوں بازو پھیلاتے ہوئے کہا۔ تجھے کیسے پتا ! ہاں ضرور اس زرینہ کے گھر چھوٹے سے ڈبے میں دیکھا ہوگا ! تیرا وہاں جانا بند کرنا ہی پڑے گا !
اس سے پہلے کہ گل کوئی جواب دیتی، ہلکی آواز میں سلام کرتا کوئی آگے بڑھا۔ اس چھوٹے سے محلے میں صبح کے وقت ، دروازے بند کرنے کا رواج بہت کم تھا۔ جنید عرف راجہ کو دیکھ کر گل کے منہ کے زاویے بہت تیزی سے بگڑے تھے۔ اس کے چہرے کی مسکراہٹ بتا رہی تھی کہ وہ ان کی باتیں سن چکا ہے۔
آو بیٹا ! ابھی گجرے تیار ہو جاتے ہیں گل چائے کا پانی رکھو! اماں کو متوقع داماد کا سوچ کر آو بھگت کی پڑ گئی تھی۔ گل پاؤں پٹختی کونے میں بنے چھوٹے سے باورچی خانے میں چلی گئی۔ راجہ اماں کی باتوں کے جواب دیتا ہوا گجرے بنانے لگ گیا۔ اماں ! چائے ابھی بنا دی تو ابا کی چائے کے لیے پتی نہیں بچے گی۔
گل نے باورچی خانے سے جھانک کر کہا ۔ اماں کا دل کیا پاس پڑی جوتی اٹھا کر اسے مار دیں مگر اپنے چہرے کے تاثرات پر قابو پاتے ہوئے آرام سے بولیں۔ پتی کا لفافہ ٹین کے کنستر میں بھی رکھا ہوا ہے ۔ تو فکر مت کر ۔ جلدی سے چائے بنا کے لے آ۔ اماں نے باورچی خانے کی طرف منہ کر کے کہا۔
ان کی کوشش تھی کہ آنکھوں سے جھلکتی ڈانٹ گل تک به آسانی پہنچ جائے مگر گل اندر سے ہی شور مچائے جا رہی تھی۔ جان کے مذاق کر رہی ہےعادت ہے اس کی۔ ساتھ ہی اماں نے راجہ کو تسلی دی۔ جو سر جھکائے کام میں مشغول تھا۔ اماں! چینی بھی تھوڑی ہے؟ کوئی بات نہیں ، راجہ کم چینی ہی پیتا ہے۔
تو بس بنالا چائے۔ اماں دودھ پتی بنانی ہے یا کڑک چائے؟ ایک اور سوال حاضر تھا۔ دودھ پتی بنا! اماں نے ہائی ہوتے بلڈ پریشر کے ساتھ ، لہجہ نرم ہی رکھا تھا۔ اچھا! پھر تو نہیں بنے گی ! دودھ بھی تھوڑا ہے گل نے اطمینان سے کہا۔ اگر میں اٹھ کر آگئی تو سب بن جائے گا !
مجھے مجبور مت کر گل! اماں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ اس لیے غصے سے بولیں ۔ راجہ نے ان کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا۔ کوئی بات نہیں مامی جان ! اس کی عادت ہے مذاق کرنے کی راجہ کے کہنے پر اماں سر جھٹک کر بڑ بڑانے لگیں ۔ تھوڑی دیر کے بعد گل چائے کا کپ تھامے حاضر ہوئی۔
یہ لیں ! گل نے چائے کا کپ اتنے زور سے میز پر رکھا کہ چائے چھلک گئی۔ بد سلیقہ لڑکی ! اماں کا بس نہیں چل رہا تھا کہ گل کی دھلائی کر دیں۔ بیٹا میں ابھی آئی۔ اماں کہتے ہوئے اپنی جگہ سے اٹھیں اور گل کے پاس سے گزرتے ہوئے اسے غصے سے گھورا۔ گل کھیسا کر پیچھے ہٹی۔
کچھ دیر کے بعد وہ پلیٹ میں بسکٹ رکھ کر لے آئیں۔ ارے مامی جان ! اس تکلف کی کیا ضرورت تھی۔ میں نے کچھ دیر پہلے ہی تو ناشتہ کیا ہے ۔ راجہ نے نرمی سے منع کیا۔نہیں بیٹا! اس میں تکلف والی کیا بات ہے میں نے سوچا اس لڑکی کو کہا تو اس کے سوال پورے ہونے تک تمہاری چائے ہی ختم ہو جاتی !
اس لیے خود ہی زحمت کر لی اماں ان نے جلے بھنے انداز میں کہا تو راجہ بے ساختہ کھلکھلا کر ہنس پڑا گل چڑ کر بولی۔ اماں میں زرینہ کے گھر جا رہی ہوں ۔ گل کہتے ہوئے اندر کمرے کی طرف چادر لینے چلی گئی۔ ایک تو اس کی یہ سہیلی زرینہ کسی دن اسے بھی سیدھا کرنا پڑے گا ۔
سب پٹیاں وہ ہی پڑھاتی ہے اماں کا مزاج آج گرم تھا۔ راجہ نے چائے ختم کی تب تک گجرے بھی بن گئے تھے ۔ راجہ نے اجازت لی۔ راجہ بیٹا ! گل کو بھی زرینہ کے گھر چھوڑ دینا۔ اس وقت گلی میں آوارہ لڑکوں کا رش بڑھ جاتا ہے۔ اکیلی لڑکی کا جانا اچھا نہیں لگتا۔ اماں نے کہا تو گل تپ کر بولی۔
میں خود چلی جاؤں گی ! ایک گلی چھوڑ کر تو ذرینہ کا گھر ہے۔ اگر راجہ کے ساتھ نہیں جانا تو اندر جا کر بیٹھ جا۔ آج تیرا باپ آتا ہے تو بات کرتی ہوں بہت سرچڑھ گئی ہے تو۔۔! اماں نے پاس پڑی جوتی کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ جسے دیکھ کر گل فورا کھلے دروازے سے باہر نکل گئی۔
اب راجہ کے سامنے اماں کی ہوائی چپل کھاتی، کیا اچھی لگتی۔ وہ تیز تیز قدم اٹھاتی چل رہی تھی ، جب پاس آ کر راجہ نے سائیکل کی گھنٹی بجائی گل نے رکے بغیر سر اٹھا کر تیکھی نظروں سے گھورا۔ مامی جان کو کیوں تنگ کرتی ہو؟ راجہ نے پوچھا۔ میری مرضی ! میری اماں ہیں۔
میں جو چاہے کروں! میری مرضی ! اس نے تنک کر جواب دیا۔ راجہ زیر لب مسکرایا۔ تمہیں میرا آنا اچھا نہیں لگتا کیا ؟ راجہ نے ہلکی آواز میں پوچھا۔ نہیں لگتا ۔ پھر ؟ گل کا انداز روکھا تھا۔ وہ زرینہ کے گھر پہنچ چکے تھے۔ مگر مجھے تو اچھا لگتا ہے راجہ کی مسکراہٹ پر گل تپ گئی ۔ وہ رک گئی اور کمر پر ایک ہاتھ رکھا اوربولی۔
تمہیں کیوں اچھا لگتا ہے؟ وہ جارحانہ تیوروں کے ساتھ اسے گھورنے لگی۔ میری مرضی! راجہ نے شرارت سے کہا اور گھنٹی بجاتا ہوا، تیزی سے آگے نکل گیا۔ آج تو بچ گئے راجہ صاحب ! کسی دن عاشقی جھاڑ کر دیکھیں ! پھر بتاؤں گی ! گل پیچ و تاب کھاتی کھلے دروازے سے اندر داخل ہوگئی۔
آپ ہنس رہے ہیں؟ اماں نے حیرت سے منہ پر ہاتھ رکھ کر ابا کو دیکھا۔ جن کی آنکھیں مسلسل ہنسنے سے بھیگ گئی تھیں۔ گل کے ابا ہر بات ہنسی مذاق میں مت اڑا دیا کریں! اپنی لاڈلی کو بلا کر اچھی طرح ڈانٹیں اور اس کی عقل ٹھکانے لائیں ۔ کل کو اگلے گھر جا کر کیا کرے گی؟
اماں تپ کر بولیں تو ابا نے ہاتھ اٹھا کر انھیں روکا اور گل کو آواز دی۔ ڈھائی مرلے کے چھوٹے سے گھر میں ان کی آواز گونجی تو گل چھوٹے چھوٹے قدم اٹھائی کمرے سے باہر نکلی۔ آج اماں نے اس کی ٹھیک ٹھاک کلاس لی تھی۔ س لیے اس کا منہ سوجا ہو اور آنکھیں بھگی ہوئی تھیں۔
ارے میری گل کو کیا ہوا؟ کیا تم رو رہی تھیں ؟ ابا سب بھول بھال کر اس کی آنکھوں کی نمی پر تڑپ اٹھا۔ اماں نے سر پر ہاتھ مارا۔ سمجھا لیا آپ نے اور سمجھ گئی آپ کی لاڈلی ! اماں بڑبڑاتے ہوئے وہاں سے اٹھ گئیں۔ گل باپ کے بازو سے لگ کر بیٹھ گی اور ان کے کان میں کھسر پھسر کرنے لگی۔
ابھی پوچھتا ہوں تمہاری اماں سے! ابا نے کہا تو گل نے فورا سر ہلا کر منع کیا۔ کیا پوچھنا ہے، پوچھ لیں ! باپ بیٹی کو کوئی حسرت نہ رہے؟ اماں نے بھاپ اڑاتی چائے کا کپ ابا کو پکڑایا تو وہ گڑبڑا کر رہ گئے۔ وہ میں کہہ رہا تھا کہ چائے اتنی دیر سے کیوں لائی ہو؟ کوئی کام تو ڈھنگ سے کر لیا کرو۔
بس ہر وقت میری بیٹی کے پیچھے پڑی رہتی ہو! ابا نے بلاوجہ کا رعب جمایا تو اماں کے ساتھ ساتھ گل بھی بے ساختہ ہنس پڑی۔ ان دونوں کو ہنستا دیکھ کر ابا کے چہرے پر بھی مسکراہٹ پھیل گئی۔ بس اتنی سی بات تھی بلاوجہ ہی ڈانٹ کر میری بیٹی کا دن خراب کیا ۔
ابا نے پیار بھری نظروں سے گل کے مسکراتے ہوئے چہرے کی طرف دیکھا۔ گل کے ابا ! مجھے کب اسے کچھ کہنا اچھا لگتا ہے مگر. اماں بات ادھوری چھوڑ کر وضو کرنے چلی گئیں ۔ گل ابا کو زرینہ کے گھر میں دیکھے نئے ڈرامے کی تفصیل سنانے لگی۔ میں اپنی بیٹی کے لیے ٹی۔
وی ضرور خریدوں گا اس کی اشتیاق بھری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے ابا نے ہر بار کی طرح خود سے عہد کیا تھا۔ مگر غربت کی چھت تلے، خواہشیں نہیں، صرف ضرورتیں پروان چڑھتی ہیں۔دیکھ ساجدا کسی بات کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے گل کو میں بہو نہیں بیٹی بنا کر لے کرجاؤں گی۔
مانا کہ ہمارے پاس روپیہ پیسہ نہیں ہے مگر تجھے خلوص اور محبت میں کبھی کمی نہیں ملے گی! بس تو جلدی سے ہاں کر دے ! کلثوم پھپھو صبح ہی مٹھائی کے ڈبے کے ساتھ پہنچ گئی تھیں۔ راجہ اور شمسہ بھی ان کے ساتھ تھے۔ شمہ تو گل کے پاس کمرے میں چلی گئی تھی ۔ ان دونوں کی عمروں میں زیادہ فرق نہیں تھا۔
اس لیے دوستی بھی بہت تھی ۔ گل جو اماں کے آگے پٹر پٹر اس رشتے کے خلاف بولتی تھی، اب شمسہ کی ذومعنی باتیں سن کر گھبرا رہی تھی۔ چھٹی کا دن تھا مگر ابا کے لیے نہیں۔ وہ چھٹی کے دن بھی پھول فروخت کرتے تھے۔ وہ کام پر جانے لگے تو راجہ بھی ان کے ساتھ ساتھ چلا گیا۔
ان کے جانے کے بعد ، گل اور شمسہ بھی باہر صحن میں آگئی ۔ کلثوم پھپھونے سارا دن وہیں گزارا۔ ان کا رویہ معمول کے مطابق تھا ۔ گل کی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ ابا نے کیا جواب دیا ہے ۔ ابا نے دوپہر کے کھانے کی خاص ہدایت کی تھی اور جاتے ہوئے اماں کو سامان خرید کر دے گئے۔
کلثوم پھپھو نے بہت منع کیا کہ وہ کھانے تک نہیں رکیں کی مگر ابا بضد رہے کہ کھانا کھائے بغیر نہیں جانے دیں گے۔ دوپہر کے کھانے پر اماں نے کلثوم پھپھو کے اعزاز میں مرغی کا سالن پکایا اور ساتھ ہی سوجی کا حلوہ۔ دوپہر کے کھانے پر پر ابا اور راجہ بھی آگئے۔
چھوٹے سے صحن میں بچھے دستر خوان پر محبت اور خلوص کی فضا میں کھانا کھایا گیا ۔ کھانے کے کچھ دیر کے بعد چائے کا دور چلا اور کلثوم پھپھو پھر آنے کے وعدے پر چلی گئیں۔ ان کے جانے کے بعد، ابا نے گل کو پاس بلایا۔ گل جھجکتے ہوئے ان کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔
گل بیٹی تم جانتی ہو کہ تمہاری پھپھو کس مقصد سے آج آئی تھیں اگر میں چاہتا تو اپنی بہن کے مان اور بھروسے پر تمہاری قسمت کا فیصلہ سنا دیتا مگر گل تم مجھے بہت عزیز ہو، تمہاری اماں اور میں دل و جان سے اس رشتے کے لیے راضی ہیں کیونکہ ہم غریبوں کے گھر اس سے بہتر کوئی اور رشتہ نہیں آئے گا-
مگر تمہاری مرضی جانے بغیر میں ہاں نہیں کر سکتا تم کیا کہتی ہو بیٹی ! ابا نے امید بھرے لہجے میں پوچھا تھا جبکہ اماں پریشان نظروں سے اس کے جھکے ہوئے سر کی طرف ہو رہی تھیں ۔ وہ باپ کی لاڈلی بیٹی تھی۔ اماں کے سامنے وہ ہر بار اس رشتے سے منع کر چکی تھی۔
اس لئے وہ دل ہی دل میں دعا کرنے لگیں کہ گل کوئی بے وقوفی نہ کرے۔ ابا ! کچھ دیر کے بعد گل نے سر اٹھا کر باپ کے چہرے کی طرف دیکھا۔ جن کی آنکھوں میں امید مگر چہرے پر ناامیدی کے سائے لہرا رہے تھے۔ مجھے آپ لوگوں کی محبت پر کبھی کوئی شک نہیں رہا ہے۔
آپ کا فیصلہ سر آنکھوں پر! گل نے سعادت مندی سے کہا تو ابا نے اس کی پیشانی پر بوسہ دیا۔ اماں بھی دوپٹے کے پلو سے گیلی آنکھیں صاف کرتی ہوئی آگے بڑھیں اور گل کو خود سے لگا لیا۔ میں اپنی بیٹی کو نادان سمجھتی رہی مگر میری بیٹی بہت سمجھ دار ہے۔ اماں کے کہنے پر گل مسکرادی۔
اماں اور ابا کو باتوں میں مگن دیکھ کر وہاں سے اٹھ گئی۔ آج ابا کے دیئے اعتماد اور یقین نے اس سے وہ فیصلہ کروایا تھا جو عام حالات میں، وہ شاید کبھی نہ کر سکتی۔ آج اسے اس بات کا اندازہ بخوبی ہوا تھا کہ زندگی بڑی بڑی باتوں یا گھروں میں نہیں بستی۔
بلکہ زندگی بہت چھوٹی چھوٹی باتوں میں سانس لیتی ہے اس نے اپنے چھوٹے سے ، غربت کے دارودیور سے سجے گھر میں خود کو پورے قد سے دیکھا ہے اور محسوس کیا تھا ۔کلثوم پھپھو کے گھر کے حالات کچھ بہتر ضرور تھے مگر ہاں بھی خواہشوں سے زیادہ ضرورتوں کو پہلے پورا کیا جاتا تھا۔
سادگی سے بیاہ کر گل اس آنگن میں خوشبو بن کر آ چکی تھی۔ اس کی آمد نے سارے گھر میں روشنی پھیلا دی تھی۔ وہ کلثوم پھپھو کی لاڈلی تو تھی ہی ، راجہ کی بھی من بھائی اور شمسہ سے بھی اس کی خوب بنتی تھی ۔ شادی کو تین مہینے گزر گئے ۔ گل گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانے لگی ۔
وہ تینوں مل جل کر کام کر لیتی تھیں اس لیے کسی ایک پر بوجھ نہیں پڑتا تھا۔ راجہ اس کی بہت سے خواہشات سے واقف تھا۔ اس لیے انھیں پوری کرنے کی تگ و دو میں لگا رہتا۔ اس نے شادی سے پہلے ایک پرانا سا ٹی وی بھی گل کے لیے کے لیے خریدا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ گل کو ڈرامے دیکھنے کا بہت شوق ہے۔
اب گل اور شمسہ فراغت پاتے ہی ٹی وی کے آگے بیٹھ جاتیں۔ اکثر کلثوم پھپھو بھی ان کا ساتھ دیتیں مگر جلد ہی اکتا کر محلے کے دورے پر نکل جاتیں کہ جو مزہ گھر گھر گھومنے اور باتیں کرنے میں تھا، وہ ایک جگہ بیٹھ کر چھوٹے سے ڈبے کو دیکھنے میں نہیں تھا۔ سردی کی شدت میں اضافہ ہو گیا تھا۔
دھند میں ڈوبی راتیں سردیوں کا حسن تھیں ۔ ان دنوں راجہ بہت دیر سے گھر آنے لگا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ شادیوں کا سیزن ہے۔ اس لیے پھولوں کی فروخت بہت بڑھ گئی تھی ۔ راجہ کی خواہش تھی کہ وہ تھوڑے پیسے جوڑ کر مین مارکیٹ میں چھوٹی سی ایک دکان کرائے پر لے لے ۔ تاکہ وہ اپنے کام کو مزید ترقی دے سکے۔
امی میری جیکٹ ٹھیک کر دی تھی ؟ صبح ناشتے کے بعد راجہ نے ہاتھ دھو کر تو لیے سے پونچھتے ہوئے ماں سے پوچھا۔ ہاں بیٹا مگر اتنے سال پرانی جیکٹ ہے۔ کب تک ساتھ دے گی؟ جگہ جگہ تو ٹانکے لگا دیئے ہیں ۔ ایسا کر لنڈے سے نئی جیکٹ خرید لے! کلثوم نے بیٹے سے کہا تو وہ پر سوچ انداز میں سر ہلا کر رہ گیا۔
امی باجی رانو سے پوچھنا کہ نیا مال آیا ہے؟ دکان پر لے جانے سے پہلے دکھا دیں۔ میں کچھ پیسے بچا کرنئی جیکٹ لے لوں گا! ہاں ٹھیک ہے۔ آج جاتی ہوں رانو کی طرف اس کے پاس ہوئی تو کبھی منع نہیں کرے گی ! چھوٹا بھائی کہتی ہے تجھے؟ کلثوم کے کہنے پر راجہ سر ہلاتے ہوئے، جیکٹ پہنے لگا اور پھر کام پر چلا گیا۔
سب کاموں سے فارغ ہو کر کلثوم پھپھو ، گل اور شمسہ کو بھی اپنے ساتھ لے گئیں ۔ رانو کا شوہر لنڈے سے مال لا کر فروخت کرتا تھا۔ بہت مناسب داموں میں چیزیں مل جاتی تھیں۔ رانو انھیں دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔ اچھا کیا خالہ آپ آگئیں ! ابھی مال دکان پر نہیں گیا ہے۔ آپ دیکھ لیں۔
اس بار کچھ بہت خاص چیزیں بھی آئی ہوئی ہیں ۔ رانو نے خوش دلی سے کہا۔ اور انھیں کونے میں بنے چھوٹے سے کمرے میں لے گئی۔ شام کو راجہ آئے گا تو اپنی پسند کے مطابق دیکھ لے گا۔ مجھے تو سب بہت اچھی لگ رہی ہیں؟ کلثوم پھپھو نے معصومیت سے کہا تو رانو ہنس پڑی۔ شمسہ نے اپنے لیے ایک سوئٹر پسند کر لیا ۔
کلثوم نے گل سے بھی کہا کہ وہ اپنے لیے سوئٹر پسند کر لے۔ گل کی نظر جس چیز پر اٹکی ہوئی تھی وہ لینا کلثوم پھپھو کے بس کی بات نہیں تھی۔ اس لیے اس نے نفی میں سر ہلا دیا۔ ارے بچی ! دیکھ تو سہی ! کتنے پیارے رنگ کے سوئٹر ہیں ! کلثوم پھپھو نے اصرار کیا مگر گل دھیرے سے مسکرادی ۔
اگلی بار دیکھ لوں گی پھپھو ! اچھا ! جیسے تیری مرضی ! کلثوم پھپھو رانوسے باتیں کرتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئیں۔ یہ کوٹ کیسا ہے گل ؟ اچانک شمسہ نے لال رنگ کا بہت خوبصورت سا لیڈیز کوٹ اٹھا کر اس کی آنکھوں کے سامنے لہرایا تو گل چونک گئی۔ اچھا ہے ۔ کیوں؟
گل نے حیرت سے پوچھا یہ کوٹ بالکل ویسا ہی ہے نا جیسا اس دن ڈرامے میں لڑکی نے پہنا ہوا تھا ! شمسہ نے کوٹ خود سے لگاتے ہوئے کہا۔ اچھا ہو گا ! مجھے نہیں یاد ! گل لا پروائی سے کہتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئی۔ رات کو راجہ گھر آیا تو کلثوم نے ایسے ساری بات تفصیل سے بتاتے ہوئے کل رانو کے گھر چکر لگانے کا کہا۔
اچھا امی ! صبح چلا جاؤں گا- گل نے کیوں سوئٹر پسند نہیں کیا؟ اس کے پاس تو کوئی اچھا سوئٹر ہے بھی نہیں ! راجہ نے فکر مندی سے کہا تو کلثوم سر ہلا کر رہ گئی۔ بہت کہا تھا مگر اسے کچھ پسند ہی نہیں آیا۔ کہہ رہی تھی کہ اگلی بار دیکھ لے گی ! جب مال آئے گا۔ مگر امی سردی بہت بڑھ گئی ہے۔
اچھا میں خود ہی لے آوں گا اس کے لیے ! راجہ نے مسئلے کا حل نکالا تھا۔ جن کے پاس پیسہ ہوتا ہے ، وہ زندگی میں خوش رہنے کے کتنے طریقے ڈھونڈ لیتے ہیں ! اب دیکھو! میں نے آنکھ کھلتے ہی ! اپنے باپ کو پھول فروخت کرتے دیکھا۔ مگر کتنی حیرت کی بات ہے کہ وہ پھول صرف پیسے والوں کے لیے ہی تھے ۔
ان پھولوں کی خوشبو ، پر صرف ان کا حق تھا جو اسے خرید سکتے تھے ۔ ہم نے کبھی کسی خوشی یا غم میں بھی ان پھولوں کو استعمال نہیں کیا۔ ہاں میری شادی پر پھولوں کا زیور ضرور میرا مقدر بنا اور دنیا میں دیکھو! گل نے ٹی۔ وی کی طرف اشارہ کیا۔ جہاں لڑکا نئے سال کے آغاز پر لڑکی کو اسکرین پر سرخ گلاب پیش کر رہا تھا ۔
راجہ نے باہر سے گزرتے وئے ایک لمحے کو رک کر اسکرین کی طرف دیکھا اور پھر گل کے چہرے کی طرف ، جہاں خواہشوں کے کتنے ہی چراغ ، حسرت کا دھواں چھوڑ رہے تھے۔ اس کے دل میں ایک کانٹا چبھا تھا۔ اپنی تین مہینے کی شادی شدہ زندگی میں پہلی بار شدت سے یہ احساس ہوا تھا کہ گل خوش نہیں ہے!
میں نے کبھی یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی کہ اس کی خوشی کسی میں ہے ؟ یا شاید میری اتنی اوقات ہی نہیں کہ میں اس کی کوئی خواہش بھی پوری کرسکوں- راجہ نے دل گرفتہ ہو کر سوچا۔ اس کے دل پر مایوسی کا چھایا کا غبار، وجود پر خاموشی بن کر چھا گیا کہ اس کی محبت کی روشنی میں جگمگاتی گل ، ایک دم پریشان ہو کر رہ گئی۔
راجہ اس سے کوئی بات کر رہا تھا اور نہ اس سے نظر ملا رہا تھا۔ گل کو ایسا لگا جیسے ساری کائنات میں سے آواز میں ختم ہوگئی ہوں۔ ابھی تو اس کا من محبت کی چھاؤں میں کھلا تھا ابھی تو اس نے محبت کا ذائقہ چکھا تھا اور اچانک ہی اس سے سب کچھ چھین لیا گیا ۔
وہ راجہ کی خاموش آنکھوں میں ، بولتی محبت ڈھونڈتی ، اس کے سلے ہوئے لبوں پر ، محبت میں ڈوبی مسکراہٹ کی ننھی کرن تلاش کرتے ہوئے تھک کر رو پڑی۔ کیا غربت کے سرد آنگن میں ، محبت کی دھوپ کبھی نہیں اترتی ہے! گل کے خاموش آنسو رخسار پر نہیں ، دل پر گر رہے تھے۔
امی! خرچے کے علاوہ یہ پیسے بھی رکھ لیں! راجہ نے ماں سے کہا تو پیسے ہاتھ میں لے کر وہ گننے لگیں ۔ پچھلے کئی دنوں سے جیکٹ خریدنے کے لیے وہ خرچے میں سے کچھ پیسے نکال کر ماں کے پاس جمع کروارہا تھا۔ آٹھ سو ہو گئے ہیں راجہ ! بس سو روپیہ اور مل جاندے تو میں تیرے لیے رانو کے پاس رکھوائی جیکٹ آپ ہی لے آؤں گی کلثوم نے پر جوش لہجے میں کہا۔
تو راجہ بے دلی سے سر ہلا کر رہ گیا۔ حالانکہ کے اس نے اپنے لیے جیکٹ خود پسند کی تھی۔ کافی عرصے سے اسے ایسی ہی جیکٹ کی تلاش تھی۔ اب اس کی پہنچ میں آنے والی تھی تو اسے کوئی خوشی نہیں ہو رہی تھی۔ امی آج مجھے واپسی میں دیر ہو جائے گی ۔ آج کمائی کا دن ہے ! نیا سال شروع ہونے والا ہے نا !
پھولوں کی مانگ بہت بڑھ جاتی ہے۔ باقی پیسے میں آپ کو رات تک دے دوں گا۔ راجہ نے کہا تو کلثوم کچھ سوچ کر بولیں۔ شمسہ نے ابھی رانو کے گھر جانا ہے ۔ اس نے کام سے بلوایا ہے۔ ایسا کر تو یہ پیسے اسے دے کر جیکٹ لے لینا۔ سو روپیہ ہی رہ جائے گا۔ وہ کل دے آوں گی ۔ کم از کم تو سردی سے تو بچے گا نا!
امی کے کہنے پر راجہ پہلے تو نہیں مانا مگر پھر ان کے بے حد اصرار پر پیسے لے کر شمسہ کے ساتھ گھر سے نکل گیا۔ پتا نہیں آج کل کل کو کیا ہو گیا ہے؟ نہ بات کرتی ہے، نہ ٹی وی دیکھتی ہے بس خاموشی سے کسی سوچ میں گم رہتی ہے! کیا آپ سے لڑائی ہوئی ہے ؟ شمسہ نے سوال کیا تو راجہ چونک گیا۔
نہیں میری لڑائی تو نہیں ہوتی ویسے وہ خوش بھی کسی بات پر ہوگی؟ ایسا کیا ہے ہمارے گھر میں ؟ راجہ نے طنزیہ لہجے میں کہا۔ نہیں بھی ایسا نہیں ہے۔ اس سے پہلے کہ شمسہ کچھ کہتی رانو کا گھر آ گیا۔ رانو ان دونوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور انھیں چھوٹے سے کمرے میں لے گئی۔
بھائی راجہ ! یہ پکڑ اپنی جیکٹ پیسے جب کبھی آئیں گے، ، تب دے دینا ! وہ اماں پروین کا پوتا آیا تھا کل ۔ وہ تو اس جیکٹ کے ؟ پیچھے پڑ گیا۔ بہت مشکل سے ٹالا ہے اسے۔ اس سے پہلے کہ راجہ کچھ کہتا ، رانو نے جیکٹ اسے پکڑا دی۔ راجہ نے جیب سے پیسے نکال کر اس کی طرف بڑھائے۔ رانو با جی! ایک سو روپیہ کم ہے۔
وہ آج رات تک دے جاؤں گا ۔ بہت شکریہ راجہ کے کہنے پررانو نے مسکرا کر پیسے تھام لیے۔ اچھا میں چلتا ہوں ! شمسہ تم رات ہونے سے پہلے گھر واپس چلی جانا ! راجہ نے جاتے ہوئے ہدایت کی۔ بے فکر رہو بھائی! منے کے ساتھ میں خود جاؤں گی اسے گھر چھوڑنے رانو نے کہا تو راجہ نے اثبات میں سر ہلایا۔
یہ کوٹ ابھی تک بکا نہیں رانو باجی ! شمسہ نے سرخ رنگ کا کوٹ ہاتھ میں پکڑتے ہوئے سوال کیا نہیں بھئی ! پہلے خالہ نسرین نے اپنی بیٹی کے کے لیے یہ کوٹ پسند کیا تھا۔ اتنے دن پڑا رہا اب کہتی ہے ہیں کہ نہیں چاہیے؟ منے کے اہا کہ – رے که کل دکان پر لے جائیں گے! یہ تو ہاتھوں ہاتھ بک جائے گا ۔
اتنا پیارا جو ہے؟ رانو باجی نے مسکراتے ہوئے کہا۔ پیارا ہے تب ہی تو ہماری گل کو بہت پسند آیا تھا ۔ اس دن بار بار کوٹ کو دیکھ رہی تھی مگر امی کے سامنے چپ رہی ۔ شمسہ کے کہنے پر دروازے کے پاس پہنچے راجہ نے مڑ کر دیکھا ۔ وہ کئی دنوں سے اسی سوچ میں گم تھا۔
کہ گل کی خوشی کس میں ہے اور آج اسے وہ خوشی اس لال رنگ کے کوٹ میں چھپی ہوئی نظر آئی تھی ! اس نے اپنی پھٹی پرانی جیکٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالا۔ اس کی جیب میں چند پیسے تھے مگر وہ چند پیسے گل کی خوشی خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے ۔ کیا میں اس کی خوشی کے لیے اتنا بھی نہیں کر سکتا؟
اس کا دل جانتا تھا کہ یہ اتنا کتنی بڑی قربانی مانگتا ہے۔ کچھ لمحے لگے ۔ اسے اپنی ضرورت اور محبوب کی خوشی میں سے ایک چیز کو چننا تھا ۔ اور اس نے محبوب کی خوشی کو چن لیا۔گل باہر سے آتے شور کو سن رہی تھی۔ کچھ من چلے نئے سال کا آغاز گانے بجانے اور آتش بازی سے کر رہے تھے۔
شمسہ اور کلثوم پھپھو سونے کے لیے اپنے کمرے میں جا چکی تھیں۔ گل راجہ کے انتظار میں اندر باہر کے چکر لگا رہی تھی۔ شدید دھند اور ٹھنڈ میں اس کے ہاتھ پاؤں سن ہو رہے تھے۔ رات کے تقریبا دو بجے دروازہ بجا۔ گل نے پہلی ہی دستک پر دروازہ کھول دیا۔ راجہ نے سردی سے ٹھٹھرتی گل کی طرف دیکھا تھا۔
جس نے پرانی شال اوڑھ رکھی تھی۔ کھانا گرم کروں ! گل نے اس کے پیچھے پیچھے آتے ہوئے سوال کیا۔ راجہ نے کمرے میں آکر ہاتھ میں پکڑا شاپر میز پر کھا اور مڑ کر اس کی طرف دیکھا۔ نہیں۔ اس کا لہجہ سپاٹ تھا۔ کیوں؟ گل نے پوچھا۔ بھوک نہیں ہے؟ راجہ نے منہ پھلا کر کہا۔ بھوک کیوں نہیں ہے؟
گل بھی آج ضد پر اڑی ہوئی تھی۔ میں نے سوچا تھا کہ تم آؤ گے تو ساتھ کھانا کھائیں گے مگر ؟ گل منہ بسور کر رہ گئی۔ راجہ نے چونک کر دیکھا۔ تم نے میری وجہ سے کھانا نہیں کھایا لہجے میں واضح حیرت تھی۔ نہیں وقوف ! تمہارے لیے نہیں کھایا! مگر تمہیں تو کسی بات کی فکر ہی نہیں؟
گل نے چڑ کر کہا تو راجہ کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی ۔ آج کتنے دنوں کے بعد اسے لگا تھا کہ دل پر چھائے مایوسی کے بادل چھٹ رہے ہیں۔ اچھا ادھر آؤ! دیکھو میں تمہارے لیے کیا لایا ہوں راجہ نے مسکراتے ہوئے میز سے شاپر اٹھا کراس کی طرف بڑھایا۔ گل نے جلدی سے تھام لیا۔
کیا لائے ہوا گل نے شاپر کھولا اور اس میں سے لال رنگ کی چیز باہر نکال لی۔ یہ گل حیرت سے اپنے ہاتھ میں لال رنگ کے کوٹ کو دیکھنے لگی ۔ جو اسے پہلی نظر میں ہی بہت پسند آیا تھا۔ یہ تو بہت مہنگا تھا راجہ پورے نو سو روپے کا !
گل نے کوٹ کی ملائم سطح پر ہاتھ پھیرا کر کہا کئی بار ہی خیالوں ہی خیالوں میں اس نے لال رنگ کے اس کوٹ کو چھو کر دیکھا تھا، پہن کرواک کی تھی- اس کی قیمت تمہاری ایک مسکراہٹ ہے گل ! میرے لیے یہ سودا زیادہ مہنگا نہیں تھا ۔
راجہ نے اطمینان سے کہا تو گل نے چونک کر اس کی طرف دیکھا اور پھر اس کی پھٹی پرانی جیکٹ کو! راجہ ۔۔۔ وہ سب سمجھ گئی ۔ اس لیے اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے ۔ ایک اور چیز بھی ہے میرے پاس ! راجہ نے کہا اور اپنے جیکٹ کی زپ کھول کر ہاتھ اندر ڈالا۔
نیا سال مبارک ہو گل ! راجہ نے نے سرخ گلابوں کا چھوٹا سا گلدستہ اس کی طرف بڑھایا۔ گل حیرت سے دیکھتی ہی رہ گئی۔ تمہیں بھی بہت شوق ہے نا کہ جیسا ٹی ۔ وی پر دکھاتے ہیں، تمہاری زندگی بھی ویسی ہی ہوا میں زیادہ تو نہیں کر سکتا مگر تمہاری خوشی کے لیے اتنا تو کر ہی سکتا ہوں ؟
راجہ نے سادگی سے کہا تو گل اس کے سانولے ہاتھوں میں پکڑے پھولوں کو دیکھتی رہ گئی۔ مٹی سے اٹے پرانے جوتوں پر سارے دن کی محنت مشقت کی گرد جمی ہوئی تھی۔ پھٹی پرانی جیکٹ پرجگہ جگہ سلائیاں ، سرد ہوا کو روکنے میں ناکام رہتی تھیں مگر غربت اور یتیمی میں پلے بڑھے، راجہ کو آج بھی اپنی خوشی اور آرام سے زیادہ کل کی فکر تھی۔
کیا ایسی محبت ، آنکھوں سے دیکھے گئے کسی خواب میں بھی سوچی تھی ؟ گل کی زندگی میں یہ دوسرا لمحہ تھا۔ جب اس نے جانا تھا کہ خوشی اور محبت بڑی باتوں یا گھروں میں نہیں بستی بلکہ اکثر بہت چھوٹی باتوں اور گھروں میں سانس لیتی ہیں۔ اور وہ بھی اپنی نم ہوتی آنکھوں سے محبت کومجسم کھڑا دیکھ رہی تھی۔
گل باہر سے آتے شور کو سن رہی تھی۔ کچھ من چلے نئے سال کا آغاز گانے بجانے اور آتش بازی سے کر رہے تھے۔ شمسہ اور کلثوم پھپھو سونے کے لیے اپنے کمرے میں جا چکی تھیں۔ گل راجہ کے انتظار میں اندر باہر کے چکر لگا رہی تھی۔ شدید دھند اور ٹھنڈ میں اس کے ہاتھ پاؤں سن ہو رہے تھے۔
رات کے تقریبا دو بجے دروازہ بجا۔ گل نے پہلی ہی دستک پر دروازہ کھول دیا۔ راجہ نے سردی سے ٹھٹھرتی گل کی طرف دیکھا تھا۔ جس نے پرانی شال اوڑھ رکھی تھی۔ کھانا گرم کروں ! گل نے اس کے پیچھے پیچھے آتے ہوئے سوال کیا۔ راجہ نے کمرے میں آکر ہاتھ میں پکڑا شاپر میز پر کھا اور مڑ کر اس کی طرف دیکھا۔
نہیں۔ اس کا لہجہ سپاٹ تھا۔ کیوں؟ گل نے پوچھا۔ بھوک نہیں ہے؟ راجہ نے منہ پھلا کر کہا۔ بھوک کیوں نہیں ہے؟ گل بھی آج ضد پر اڑی ہوئی تھی۔ میں نے سوچا تھا کہ تم آؤ گے تو ساتھ کھانا کھائیں گے مگر ؟ گل منہ بسور کر رہ گئی۔ راجہ نے چونک کر دیکھا۔ تم نے میری وجہ سے کھانا نہیں کھایا لہجے میں واضح حیرت تھی۔
نہیں وقوف ! تمہارے لیے نہیں کھایا ! مگر تمہیں تو کسی بات کی فکر ہی نہیں؟ گل نے چڑ کر کہا تو راجہ کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی ۔ آج کتنے دنوں کے بعد اسے لگا تھا کہ دل پر چھائے مایوسی کے بادل چھٹ رہے ہیں۔ اچھا ادھر آؤ!
دیکھو میں تمہارے لیے کیا لایا ہوں راجہ نے مسکراتے ہوئے میز سے شاپر اٹھا کراس کی طرف بڑھایا۔ گل نے جلدی سے تھام لیا۔ کیا لائے ہوا گل نے شاپر کھولا اور اس میں سے لال رنگ کی چیز باہر نکال لی۔ یہ گل حیرت سے اپنے ہاتھ میں لال رنگ کے کوٹ کو دیکھنے لگی۔ جو اسے پہلی نظر میں ہی بہت پسند آیا تھا۔
یہ تو بہت مہنگا تھا راجہ پورے نو سو روپے کا ! گل نے کوٹ کی ملائم سطح پر ہاتھ پھیرا کر کہا کئی بار ہی خیالوں ہی خیالوں میں اس نے لال رنگ کے اس کوٹ کو چھو کر دیکھا تھا، پہن کرواک کی تھی- اس کی قیمت تمہاری ایک مسکراہٹ ہے گل ! میرے لیے یہ سودا زیادہ مہنگا نہیں تھا۔
راجہ نے اطمینان سے کہا تو گل نے چونک کر اس کی طرف دیکھا اور پھر اس کی پھٹی پرانی جیکٹ کو! راجہ۔۔۔ وہ سب سمجھ گئی۔ اس لیے اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ ایک اور چیز بھی ہے میرے پاس! راجہ نے کہا اور اپنے جیکٹ کی زپ کھول کر ہاتھ اندر ڈالا۔
نیا سال مبارک ہو گل ! راجہ نے نے سرخ گلابوں کا چھوٹا سا گلدستہ اس کی طرف بڑھایا۔ گل حیرت سے دیکھتی ہی رہ گئی۔ تمہیں بھی بہت شوق ہے نا کہ جیسا ٹی۔ وی پر دکھاتے ہیں، تمہاری زندگی بھی ویسی ہی ہوا میں زیادہ تو نہیں کر سکتا مگر تمہاری خوشی کے لیے اتنا تو کر ہی سکتا ہوں؟
راجہ نے سادگی سے کہا تو گل اس کے سانولے ہاتھوں میں پکڑے پھولوں کو دیکھتی رہ گئی۔ مٹی سے اٹے پرانے جوتوں پر سارے دن کی محنت مشقت کی گرد جمی ہوئی تھی۔ پھٹی پرانی جیکٹ پرجگہ جگہ سلائیاں، سرد ہوا کو روکنے میں ناکام رہتی تھیں مگرغربت اور یتیمی میں پلے بڑھے، راجہ کو آج بھی اپنی خوشی اور آرام سے زیادہ کل کی فکر تھی۔
کیا ایسی محبت، آنکھوں سے دیکھے گئے کسی خواب میں بھی سوچی تھی؟ گل کی زندگی میں یہ دوسرا لمحہ تھا۔ جب اس نے جانا تھا کہ خوشی اور محبت بڑی باتوں یا گھروں میں نہیں بستی بلکہ اکثر بہت چھوٹی باتوں اور گھروں میں سانس لیتی ہیں۔ اور وہ بھی اپنی نم ہوتی آنکھوں سے محبت کومجسم کھڑا دیکھ رہی تھی۔
تو نے اپنی جیکٹ کے بدلے ، گل کے لیے کوٹ لے لیا ! بیٹا کوٹ کے بغیر تو اس کا گزارہ ہو جاتا مگر تو کیا کرے گا؟ اتنی ٹھنڈ ہے اور ! کلثوم نے باورچی خانے میں پیڑی پر بیٹھے گرم گرم پراٹھے سے انصاف کرتے راجہ سے ہلکی آواز میں کہا۔ دن کے دس بج چکے تھے۔ آج راجہ کو دیرسے جانا تھا۔
گل اور شمسہ کسی کام سے باہر نکلی ہوئی تھیں۔ امی ! کچھ نہیں ہوتا ! میں نے اسے آج تک دیا بھی کیا ہے؟ یہ معمولی سی خوشی بھی نہیں دے سکتا تھا کیا؟ راجہ نے لاپروائی سے کہا اور ناشتہ ختم کر کے اپنی جگہ سے اٹھ گیا ۔ کپڑے بدل کر وہ جیکیٹ لینے کمرے میں آیا۔
اسی وقت گل گھر کے اندر داخل ہوئی اور سیدھا کمرے کی طرف بڑھی۔ میری جیکٹ کہاں گئی ؟ راجہ نے چھوٹے سے کمرے میں پھیلے سامان پر نظر دوڑاتے ہوئے کہا۔ یہ لیں؟ اسی وقت گل نے ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔ راجہ اس کے ہاتھ میں پکڑی نئی جیکٹ دیکھ کر چونک گیا۔ اسے سب سمجھ میں آگیا۔
گل کوٹ واپس دے کر جیکٹ لے آئی تھی۔ اس کے دل کا تکلیف پہنچی! تم ؟ راجہ کو ایک دم ہی غصہ آگیا کہ گل نے اس کے تھفے کی قدر نہیں کی تھی ۔ وہ اپنے غصے کو ضبط کرتا رخ پھیر گیا۔ گل تم نے میری غربت کا مذاق اڑایا ہے! راجہ کا لہجہ اپنی بے بسی کے احساس سے پست تھا۔
نہیں راجہ تم مجھے سمجھ نہیں سکے میری اولین خواہش اور چاہت صرف تمہارا ساتھ اور تمہاری محبت ہے؟ گل نے مدھم لہجے میں کہا تو اس کے منہ سے پہلی بار لفظ محبت سن کے راجہ خوشی سے اچھل ہی پڑا بولا۔ گل کیا سچ ؟ وہ ایک دم ہی پلٹ کر بولا تو گل نے حیرت سے دیکھا ۔
راجہ کو اپنی بے ساختگی کا احساس ہوا تو خجل ہو کر سر کھجانے لگا۔ گل بے ساختہ ہنس پڑی۔ بات صرف اتنی سی ہے جناب ! گل نے جیکٹ اس کے کندھے پر رکھتے ہوئے کہا۔ گل فروش کی بیٹی ہوں ! اصلی اور خالص پھولوں کی قیمت بہت اچھی طرح سے جانتی ہوں اور میرا دل تسلیم کرتا ہے کہ … کیا ؟
راجہ نے پر اشتیاق لہجے میں پوچھا۔ تمہاری محبت کی خوشبو بھی بہت انمول اور خالص ہے، بالکل ان پھولوں کی طرح؟ گل نے آگے بڑھ پر میز پر رکھے سرخ پھولوں کو چھوا تھا۔ کیا سچ میں گل! تم خوش ہو؟ پچھلے کئی دنوں سے میں اسی سوچ میں جلتا رہا کہ تم اس شادی سے خوش نہیں ہو۔
میں تمہاری کوئی خواہش پوری کرنے کے قابل نہیں ۔ راجہ نے افسردگی سے کہا تو گل گہری سانس لے کر رہ گئی۔ اور میں پاگلوں کی طرح تمہاری خاموشی کی وجہ سوچتی رہی ! خود سے الجھتی رہی ! اور تب میں نے جانا کہ میرے لیے تمہاری محبت دنیا کی ہر چیز سے زیادہ قیمتی ہے ؟
گل کے اعتراف نے راجہ کو آسمان پر پہنچا دیا۔ اس نے خوشی سے جیکٹ پہنی ! اس نے اپنی انا کو ایک طرف رکھ کر دیکھا تو اسے اس جیکٹ میں سے گل کے خلوص اور محبت کی مہک آرہی تھی۔ گل نے اس کی فکر اور محبت میں اپنی خوشی کو قربان کیا ! راجہ کو ایسا لگے رہا تھا کہ جیسے وہ سچ سچ کا راجہ ہو۔
صرف ایک گل کی محبت اور ساتھ کی وجہ سے ۔ آج اس کا دل محبت کی نعمت سے مالا مال تھا۔ اچھا امی ! میں جا رہا ہوں؟ راجہ نے ماں کے پاس آ کر کہا تو کلثوم نے پہلے حیرت اور پھر مسکراتی ہوئی نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔ راجہ گنگناتا ہوا چلا گیا ۔
کلثوم نے کمرے سے باہر نکتی گل کو آواز دے کر بلایا اور اس کے سر پر محبت سے ہاتھ پھیر کر بولی۔ میری گل کا دل بھی ، اس کی طرح ہی اجلا ہے اللہ تیرے دل کا آنگن آباد رکھےامین – گل نے زیر لب کہا اور مسکرانے ہوئے پلٹ گئی۔ محبت کو زمین کے فاصلوں یا فیصلوں سے مطلب نہیں ہوتا ، اسے رہنے کے لیے چھوٹا ۔
پر خلوص دل مطلوب ہوتا ہے اور جہاں اسے اپنے مطلب کی چیز ملے، وہ فورا بسیرا ڈال لیتی ہے! ابن آدم کے سینے میں دھڑکتا سرخ دل گل ہے اور محبت اس کا ئنات میں گل فروش ۔۔۔ اب چاہے وہ دل ، تنگ گلی کے کونے میں ہے چھوٹے سے گھر میں رہنے والے ایک عام سے کیا سے گل فروش کا ہو یا کسی گل فروش کے آنگن میں کھلتی ، سانس لیتی گل کا ۔۔۔۔۔!!