بن ماں کی بچی
چاچا رشید کی بیٹی کا نکاح ہوتے ہوتے رہ گیا۔ آج محلے کی سب سے بڑی خبر یہی تھی۔ جو جنگل میں آگ کی طرح ہی پھیل گئی تھی۔ جس نے بھی سنا اس نے دانتوں کے نیچے زبان دبائی کہ بے چاری بن ماں کے بچی کے ساتھ یہ کیا غضب ہو گیا۔ قسمت ہی خراب ہے ان بہن بھائیوں کی۔ چھوٹے چھوٹے تھے۔ تو ماں مر گئی۔ جوان ہوئے تو پہلے بھائی کی بچپن کی منگنی ٹوٹ گئی۔
سگی پھوپھی نے مری ہوئی بھابھی کا بھی نہ سوچا اور منگنی تو ڑکرلڑکی کی شادی کہیں اور کر دی اور اب جب اللہ اللہ کر کے اس بے چاری کا رشتہ ملا۔ اور شادی ہونے جارہی تھی تو نکاح والے دن لڑکے والوں سے جھگڑا ہو گیا۔ اور وہ بغیر نکاح کے لوٹ گئے۔ چاچا رشید کا بی پی ہائی ہو گیا۔ ان کو گاڑی میں ڈال کراسپتال لے گئے اور پیچھے رہ گئی سویرا اور اس کی چھوٹی بہن کرن۔ پورے محلے کی عورتوں کی بے کار باتیں سننے کے لیے۔ جب دو گھنٹے بیت گئے۔
چاچا رشید کی واپسی نہ ہوئی تو ایک ایک کر کے سب عورتیں بھی اپنے گھروں کی طرف چل پڑی تھیں۔ مغرب ہونے کو تھی گھر جا کر کچن بھی دیکھنے تھے۔ وہ لوگ مٹھائی اور چینی تو واپس لے گئے تھے۔ ہاں رشید چاچا کی طرف سے جو نمک پارے، پکوڑے اور سموسے دیے جانے تھے۔ سو وہ کچن میں موجود تھے۔ ساتھ میں کشمیری چائے بھی تھی اور ایسے حالات میں جب گھر والوں کو اپنا ہوش نہ رہا تھا۔ محلے کی عورتوں اور بچوں کی تو جیسے عید ہی ہوگئی ۔ غیر تو پھر غیر تھے۔
اپنے رشتے دار بھی کچھ کم نہ تھے جس کے جو ہاتھ آیا، شاپر بھر کر اپنے بچوں کو دے دیا۔ یہاں بڑا پڑا سب خراب ہی ہونا ہے۔ رشید بھائی کے پیسے لگے ہیں۔ مفت میں تھوڑی آیا ہے یہ سارا سامان کچھ عورتوں کو گلہ تھا کہ وہ کمینے لوگ چلو چینی لے جاتے مگر مٹھائی تو چھوڑ جاتے۔ ان کے ہاں رسم تھی کہ نکاح پر لڑکے والے چینی کی دو بوریاں لاتے ہیں۔ جو نکاح کے بعد سب کو دی جاتی ہے۔ سب سویرا بے چاری کو بن ماں کی بچی کہہ کر کچھ نہ کچھ سمجھا کر بتا کر چلے گئے۔
تب وہ اپنی چھوٹی بہن کے گلے لگ کر خوب روئی۔ یوں لگ رہا تھا کہ جیسے برسوں پہلے نہیں بلکہ ابھی ابھی اس کی ماں کا جنازہ گھر سے نکلا ہو۔ سب سے آخر میں ہماری تائی اٹھ کر آئی تھیں۔ مجھ سے سے تو اس بچی کا رونا نہیں دیکھا گیا اس لیےگھر آ گئی ورنہ یہی سوچا تھا کہ رشید بھائی کے گھر آنے تک وہاں ہی رہوں گی۔ مگر مغرب کا وقت اور اوپر سے اس کا رونا ۔ مجھے لگا کہ دل گھیرا رہا ہے بی پی نہ ہائی ہو جائے۔ اس لیے گھر چلی آئی۔ میں نماز پڑھ لوں پھر تم میرے ساتھ چلنا عمار ۔
انہوں نے مجھے دیکھتے ہوئے کہا۔ ٹھیک ہے تائی امی میں بھی نماز پڑھ لوں۔ پھر چلتے ہیں۔ قسم سے اگر میرا کوئی بیٹا ہوتا تو ہاتھ پکڑ کر رشید بھائی کے سامنے لے کر جاتی اور کہتی کہ میں بہو بنانا چاہتی ہوں سویرا کو ۔ یہ ارشاد اس لیے فرمایا گیا کہ ان کا کوئی بیٹا ہی نہیں تھا ہاں دل ضرور نرم تھا ان کا میری طرح۔پہلے تائی امی کو پی پی ہائی ہونے کا خطرہ تھا۔ اب شوگر نیچے جارہی تھی۔ اس لیے نماز پڑھ کر مجھے روٹی پکانے پہ لگا دیا۔ پھر آرام سے روٹی کھائی۔
اور اب ہم دونوں ٹارچ لے کر گھر سے نکل آئی تھیں۔ ویسے تائی امی ! یہ لڑکے والوں سے جھگڑا کس بات پہ ہوا تھا۔ کہ وہ یوں نکاح چھوڑ کر چلے گئے ۔ میں نے وہ سوال پوچھ لیا۔ جو سب سے اہم تھا۔ کسی نے اس بات پر توجہ ہی نہیں دی تھی نکاح نہیں ہوا۔ چاچا رشید کو اسپتال لے گئے ۔ ان دو بڑی خبروں کے بعد شاید ہی کسی نے یہ سوچا ہو۔ بڑے ہی کمینے لوگ تھے عمارہ وہ عثمان (سویرا کا بھائی) نے کہا کہ جو سونا ڈال رہے ہیں ۔
وہ لکھ بھی دیں اور دولاکھ روپے پہلے سے طے تھا کہ لکھ کر دیں گے مگر سونے کے نام پہ وہ بگڑ گئے۔ جبکہ سب نے کہا کہ سونا لڑکی کا ہی ہوتا ہے۔ آپ اسے دے رہے ہیں تو لکھ کر دینے میں کیا مسئلہ ہے؟ کچھ لوگوں نے عثمان کو بھی سمجھایا مگر وہ لڑکے کا باپ کہنے لگا کہ پہلے ہی دو لاکھ طے کر لیا تھا اب سونا کہہ رہے ہیں ۔ ہرات آنے پہ اور خرچا نکال لیں گے۔ کہ یہ رسم کرنی ہے وہ رسم کرنی ہے۔ اب کہ رشید بھائی نے بھی کہا۔
کہ یہ رسم رواج تو دنیا کے ساتھ ہیں بھائی اس پر وہ فرمانے لگے کہ تو کیا پہلی شادی کا سارا خرچ ہماری جیب سے ہی نکالنا ہے رشید صاحب یوں لگ رہا ہے کہ جیسے بیاہ نہیں کر رہے ہو۔ بلکہ فروخت کر رہے سب نے آگ پہ تیل میں ڈالا ۔ یوں وہ لوگ چلے گئے۔ سامنے والی گلی میں چا چا رشید کا گھر تھا۔ اور گلی میں محلے کی عورتیں کچھ آرہی تھیں کچھ جارہی تھیں ہم دونوں بھی آنے والی عورتوں میں شامل ہو کر گھر میں داخل ہوئیں۔
تین کمرے اور ان کے آگے چھوٹا سا برآمدہ تھا۔ گیٹ سے برآمدے کے درمیان مختصر سا کچن تھا۔ جس کو عبور کر کے ہم نے برآمدے میں قدم رکھا۔ چاچا رشید بر آمدے میں ہی ایک چارپائی پر بیٹھے تھے چھوٹی کرن ان کا سر دبا رہی تھی۔ دوسری سائیڈ یہ سویرا بیٹھی تھی۔ اس نے کپڑے بدل لیے تھے۔ مگر منہ نہیں دھویا تھا۔ سادہ سے بلیک سویٹ میں اس کی روئی روئی سرخ آنکھیں ، آدھا ادھورا میک اپ بھی موجود تھا۔ وہ چپ چاپ بیٹھی تھی۔
اور مجھے تائی امی والی بات یاد آئی کہ اگر ان کا بیٹا ہوتا تو ؟ وہ بہت خوب صورت تھی مگر ہمیشہ سادہ رہتی تھی۔ آج تیار ہوئی تو بالکل شہزادی لگ رہی تھی۔ تو مجھے بھی خیال آیا مگر میرا ایک بھائی شادی شدہ تو دوسرا ابھی کالج میں تھا۔ اور اس نے بھی تائی امی کا داماد بننا تھا۔ سوفورا وہ خیال اڑ بھی گیا۔ مگر اب وہاں باتوں کا رخ دوسری طرف چلا گیا تھا۔ ایک آنٹی جی کہہ رہی تھیں۔ اللہ کا شکر ادا کرو رشید بھائی! تمہاری بیٹی ایسے لوگوں میں کیسے گزارا کرتی لڑکے کا باپ بڑا لالچی لگ رہا تھا ۔
بڑے ہی بد سلیقہ لوگ تھے۔ دوسری پولیں ۔ ہاں رشید بھائی یقین کریں کوئی نیکی کام آ گئی آپ کی ساری زندگی کے رونے سے یہ رونا ٹھیک ہے۔ تمہاری بیٹی یوں سمجھ لو کہ کنویں میں گرنے سے بال بال بچ گئی ۔ اور چاچا رشید صرف سر ہلا رہے تھے۔ اللہ جانے وہ سن بھی رہے تھے یا نہیں۔ ٹھیک کہہ رہی ہیں آپ خالہ ! اللہ کے ہر کام میں بہتری ہوتی ہے۔ اچھا ہوا جو ہوا۔ اللہ نے میری بہن کے لیے کچھ اچھا سوچ رکھا ہوگا چاچا رشید نے کسی کی بات کا جواب نہ دیا تھا –
لیکن عثمان بول پڑا۔ ہاں بیٹا! ضرور کیوں نہیں۔ ضرور اللہ راہ نکالے گا۔ تمہاری بہن کی قسمت میں ضرور کوئی اچھا خاندان اور اچھا انسان لکھا ہوگا ۔ تائی امی نے بھی اپنا حصہ ڈالا تھا۔ جب رشید چاچا نے کہا کہ ان کو ایک ضروری بات کرنی ہے تب کچھ چہرے حیران اور کچھ پریشان نظر آئے کہ چاچا رشید نے وہاں موجود سب محلے داروں اور رشتے داروں سے کیا ضروری بات کرنا تھی۔ چاچا رشید نے کہا۔ میں اپنی بیٹی کی شادی اسی دن کرنا چاہتا ہوں ہماری ساری تیاری ہو چکی ہے۔
پرسوں سامان اٹھانا ہے۔ میں گھر لا کر کہاں رکھوں گا؟ میں آپ سب سے کہہ رہا ہوں کہ میری جو تھوڑی عزت باقی ہے وہ بچا لیں ۔ آپ میں سے کوئی اسے اپنی بہو، بیٹی بنائے۔ سب حیران سے منہ کھولے ان کی شکل دیکھ رہے تھے۔ یہاں تک کہ عثمان اور سویرا بھی۔ اچانک سے سب زبانوں کو تالا لگ گیا۔ پھر سب باری باری شروع ہوئیں۔ میرے تو دونوں چھوٹے ہیں۔ میرے عمار کی بات پکی ہو چکی ہے۔ میرا پڑھ رہا ہے۔ کسی کا بے روز گار تھا تو کسی کا منگنی شدہ۔
اس منٹ میں گھر خالی ہو گیا۔ کچھ دیر پہلے کیسی کیسی باتیں کر رہی تھیں۔ اب وہاں صرف ہم دونوں ہی تھیں اور شاید اس لیے تھیں کہ اور تائی امی کا کوئی بیٹا نہ تھا۔ تائی امی نے افسوس سے کہا۔ کاش! میرا بیٹا ہوتا تو قسم سے تم کو یوں یہ سب نہ کہنا پڑتا ۔ اور چا چا نم آنکھوں سے مسکرائے۔ یہ تو ان سب کو اٹھانے کے لیے میں نے کہا تھا۔ ان کی باتوں سے سر میں درد ہونے لگا تھا۔ سویرا آنکھوں میں آنسو لیے اندر کمرے میں چلی گئی اور اس کے پیچھے کرن بھی۔
میں نے تائی امی کو اٹھنے کا اشارہ کیا تو وہ میرا ہا تھ تھام کر کھڑی ہوئیں۔ مگر چند قدم چل کر پھررک گئیں۔ اور میرا ہاتھ چھوڑ کر دوبارہ رشید چاچا کے پاس جا کر بولیں۔ رشید بھائی ! میں گھر جا کر عمارہ کے باپ سے بات کروں کی ہمارا کاشف تین ، چار سال چھوٹا ہوگا تمہاری سویرا سے مگر کوئی بات نہیں اگر عمران مان گیا تو کاشی بھی مان جائے گا۔ چاچا ہنس پڑے۔ کیوں پگلی ہورہی ہو یاسمین بہن! اور مجھے بھی یہی لگا کہ تائی امی کا دماغ چل گیا ہے۔
وہ بھول گئی ہیں کہ کچی پکی ہی سہی مگر کاشی کی بات ان کی اپنی بیٹی مناہل سے طے ہے۔ میں مذاق نہیں کر رہی۔ نہ پاگل ہوئی ہوں۔ میں گھر جا کر بات کروں گی آگے بچی کے نصیب –رات دس بجے گھر میں داخل ہوئے تو میں نے فوراً کمرے کی راہ لی۔ کیونکہ صبح کالج جانا تھا۔ ہاں تائی امی نے ضرور ابا کے کمرے کا رخ کیا تھا۔ میں حیران تھی۔ کمرے میں آکر اک نظر بے خبر سوئی مناہل کو دیکھا۔ مجھے یقین تھا کہ ابا ، امی کی بھی نہیں مانیں گے پھر بھی خوف آیا۔ تو بے اختیار ہی زبان سے نکلا۔
اللہ ان دونوں کی خوشیاں قائم رکھنا ۔ بستر پہ لیٹ کر کچھ دیر تو خیال کا جگنو ادھر ادھر اڑتا رہا مگر پھر نیند مہربان ہوئی تو میں سوئی۔ کالج جانے سے پہلے تائی امی کی شکل بتا رہی تھی کہ وہ ناکام رہی ہیں۔ اور مجھے تھوڑا سکون ملا۔ ان کی اس ناکامی ایک طرف مگر مجھے کاشی کی خوشی عزیز تھی۔ اس لیے پر سکون ہو کر کالج چلی آئی۔ کیونکہ تائی امی اپنی کوشش میں ہار چکی تھیں۔
مجھے پہلے ہی پتا تھا کہ امی ، ایا نہیں مانیں گے اور کاشی کو بھی کسی پاگل کتے نے تو نہیں کاٹا کہ وہ مناہل کو چھوڑ کر خود سے اتنی بڑی لڑکی سے شادی کر لے ہاں مگر پھر بھی مجھے اس سویرا پہ ترس آ رہا تھا۔ مگر میں اس کی کوئی مدد نہیں کر سکتی تھی۔۔ اور جب ہم شام کی چائے پی رہے تھے ابا عصر کی نماز پڑھ کر آئے اور بتایا کہ کل چاچا رشید کی بیٹی کی مہندی ہے اور یہ سن کر مجھے اور تائی امی کو سچ میں اچھا لگا۔ امی بولیں ۔ آپا ! آپ ویسے ہی پریشان تھیں۔
دیکھ لیں اتنا بڑے خاندان سے مل ہی گیا ناں رشید بھائی کو رشتہ، ابھی دنیا میں اچھے لوگ بھی موجود ہیں۔ ابو ان کی بات پراستہزائیہ اندازمیں بولے۔ ہاں اچھے لوگ موجود ہیں۔ کچھ ڈراموں اور کہانیوں میں اور کچھ اچھے لوگ صرف امیروں کے کام آتے ہیں۔ غریب کے حصے میں نہیں آتے ۔ ان کی بیٹی کی شادی وہیں پہ ہو رہی ہے جہاں پہ نکاح ہوتے ہوتے رہ گیا تھا ۔اور میں حیران رہ گئی کہ ابھی کل وہ سارے خاندان کے سامنے ہزار باتیں سنا کر گئے۔
نہ اپنی عزت کا سوچا۔ اور نہ رشید چاچا کی عزت کا خیال کیا۔ مگر رشید چاچا پھر بھی ان کو ہی اپنی بیٹی دے رہے ہیں۔ جی چاہ رہا تھا کہ جاکر اس کے بھائی سے پوچھوں کہ اب کیا ہوا کل بڑا شکرادا کر رہے تھے کہ بے غیرت لوگوں سے جان چھوٹی تو اب کیا ہوا ؟مگر میں ایسا نہیں کر سکتی تھی کہ ہماری نہ کوئی رشتے داری تھی اور نہ بھی سلام دعا محلے داری بھی سلام دعا کی حد تک تھی مگر مجھے یہ اچھا نہیں لگا جو ٹھکرا کر چلے گئے تھے، وہ ان کے ہی گھر جا رہی ہے-
میرے میاں بتا رہے تھے کہ بے چارے رشید بھائی نے خود جا کر بات کی ہے ان لوگوں سے ۔ اور نہ جانے کس شرط پر مانے ہیں وہ لوگ ۔ ہاں ، یہ بات میں نے بھی سنی ہے کہ لڑکے کے باپ کے پاؤں پڑے ہیں۔ سر سے اتارنے والی بات کی رشید بھائی نے بھی بیٹی کو ۔ میں امی اور تائی کے ساتھ رشید چاچا کے صحن میں بیٹھی تھی اور ہمارے آس پاس موجود عورتیں کتنی دیر سے ایسی ہی باتیں کر رہی ہیں۔ کوئی کہتی تھی عثمان گیا تھا ان کو منانے۔
ایک نے کہا لڑ کا خود رات کو آیا تھا رشید بھائی کے پاس جبکہ اکثر عورتوں کا خیال تھا کہ اچھا ہی ہوا کہ شادی ہو رہی ہے سویرا کی۔ ورنہ کون بیاہ کر لے جاتا ۔ اچھا ہے اپنے گھر کی ہو جائے گی۔ یہ سب وہ عورتیں تھیں جن کے گھر جوان لڑکے موجود تھے۔ جتنی عورتیں اتنی باتیں -اور وہ ٹھیک ہی کہہ رہی تھیں۔ وہ سب ان کے خاندان کی تھیں مگر چاچارشید کی بات سن کر کیسے غائب ہوگئی تھیں ان میں سے کسی نے سویرا کا ہاتھ نہ تھاما تو کوئی غیر کہاں سے آتا تھا۔
چلو، اللہ بچی کے نصیب اچھے کرے بس یہ دعا کرو۔ تائی کی بات پہ سب نے آمین کہا اور جب کھانا کھل گیا کی آواز آئی تو سب ایسے بھاگی تھیں کہ جیسے زندگی کا پہلا یا پھر آخری کھانا ہو۔ کھانے سے فارغ ہو کر جلد ہی دلہن کو باہر لے آئے۔ عام شادیوں جیسا کچھ نہ تھا۔ نہ مودی بن رہی تھی نہ لڑکے والے دلہن کے آگے پیچھے تھے۔ صرف دلہن اور دولہا کی تصویریں لیں موبائل میں اور رخصتی کا شور اٹھا۔
گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے وہ جب اپنے بھائی کے گلے لگ کر بلند آواز میں روئی بالکل یوں جیسے کسی کےجنازے پہ کسی کی میت اٹھنے یہ روتے ہیں۔ تو بہت آنسو آئے تھے دوسروں کی آنکھوں میں۔ ہاں شاید یہ جنازہ ہی تھی اس کی عزت کا – کیا ہوا؟ کیسے ہوا ؟ اور کس نے کس کے پاؤں پکڑے اللہ ہی جانے ؟ اس لڑکی سے کسی نے نہ پوچھا تھا۔ اس کی حالت بتا رہی ہیں۔
اس کی خواہش اور مرضی نہیں پوچھی گئی تھی۔ کہ جو ٹھکرا کر چلے گئے تھے وہاں رہنا چاہتی ہے یا نہیں ۔ وہ روتے روتے گاڑی میں بیٹھ گئی۔ تائی امی نے کہا بے چاری بن ماں کی بچی سب کچھ دل میں لے کر چلی گئی ۔ ماں ہوتی تو وہ ماں کو بتاتی وہ سب جو اب آنسو میں بہا کرچلی ہے۔ اور اس لمحے پہلی بار وہ مجھے بن ماں کی بچی محسوس ہوئی تھی۔ جب چاچا رشید گاڑی کے اوجھل ہو جانے کے بعد پھوٹ پھوٹ کر رویا تھا-