بے موسمی زندگی
تیز ہوا کے پہلے جھونکے کو خوش آمدید کہتے ہی بجلی الوداع ہو گئی تھی۔ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے بے قراری کے عالم میں کوئی مسلسل کھڑکیاں پیٹ رہا ہو۔ گھپ اندھیرے میں گرجتے برستے بادلوں نے ماحول کی ہولناکی میں اضافہ کر دیا تھا۔
باقی کی رہی سہی کسر، بجلی کے کڑکنے کی دل دہلا دینے والی آواز اور آنکھیں چندھیا دینے والی روشنی نے پوری کردی۔ رات کے آخری پہر شائیں شائیں کرتی ہوا اور دھواں دھار بارش کی تیز بوچھاڑ سے طوفان کی شدت کا اندازہ با آسانی لگایا جا سکتا تھا۔
منہ زور ہوا کے مستقل تپھیٹروں سے، کمرے کی لکڑی کی اکلوتی کھڑکی کے پٹ دھڑ کی زور دار آواز سے کھلے۔ یا اللہ خیر ! چادر میں دبک کے لیٹی نگہت خوف زدہ ہو کر ایک جھٹکے سے چارپائی سے اٹھ بیٹھی۔ چند قدم کے فاصلے پر سوئچ بورڈ کے نزدیک چارچنگ کی غرض سے دیوار پر لٹکائی ٹارچ تک وہ اندازے سے پہنچی۔
ٹارچ آن کرتے ہی کمرے میں ہلکی سفید روشنی پھیلی اور اس نے بے اختیار اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر ڈرے سہمے ، بے تحاشا دھڑکتے دل کو دلاسا دینے کی کوشش کی ۔ کھڑکی کے پٹ مضبوطی سے بند کر کے دیوار پرٹنگی گھڑی پر نظر ڈالی۔
رات کے ڈھائی بج رہے تھے۔ یا الله…. یہ اندھیری طوفانی رات اکیلے کیسے کاٹوں گی ؟ دل میں شکوہ اٹھا۔ عام دنوں میں بھی رات کی تاریکی اور ہولناک خاموشی میں اس کی آنکھوں کے سامنے کتنی ہی محرومیاں ناچتیں اور نیندیں اڑا لے جاتیں۔
آج تو پھر خوف ناک طوفانی رات تھی، جو کسی طرح کاٹے نہیں کٹنی تھی۔ ماں صحیح کہتی تھیں کہ کلاتے کوئی روئی رکھ دی نہ ہووئے۔ ماں کی یاد پر اسے اپنی تھکی ماندی آنکھوں کے گوشے نم ہوتے محسوس ہوئے تھے۔
خدا جانے بے فکری کی نیند کی مٹھاس کا ذائقہ کیسا ہوتا ہے اور کن لوگوں کو چکھنا نصیب ہوتا ہے؟ اپنے ہوش سنبھالنے سے لے کر اب تک، نگہت کو تو بے فکری کی میٹھی نیند میسر نہیں آئی تھی۔ چھوٹی سی عمر میں ہی اس نے حالات کے کتنے ہی بے رحم تھپیڑے اپنے نازک وجود پر سہے تھے۔
جس بالی عمر میں لڑکیاں شوخی سے بھر پور ہوتی ہیں، آنکھوں میں رنگین سپنے اور دل میں امنگیں پالتی ہیں ، وہ گھر کی فکر میں گھلنے لگی تھی۔ بیمار ماں ، فکر معاش میں جتا باپ ، اکھڑ مزاج بھائی اور سب کی پرواہ میں ہلکان ہوتی وہ اکیلی جان۔ اری او نگو کہاں ہے؟
اماں کی ایک آواز پر سب کام کاج چھوڑ کر وہ ان کے پاس بھاگی چلی جاتی۔ نگو! میری دھی کھانا لگا دے بہت بھوک لگی ہے۔ تھکن سے نڈھال ابا گھر میں داخل ہوتے ہی اسے پکارتا اور وہ تازی روٹی بنانے کے لیے جلدی سے پیڑے بنانے لگ جاتی۔
نگو چائے بنا دے میرے کپڑے استری کردے جلدی کر کھانا بنا دے! سارا دن وقفے وقفے سے بھائی آوازیں لگاتا اور وہ جی جی کرتی پورے گھر میں پھرکی کی طرح پھرتی رہتی۔
باپ کی چلتی کریانے کی دکان ، بھائی نے کم عمری میں ہی سنبھال لی کہ اول تو اس کا پڑھائی میں دل نہیں لگتا تھا ، دوم ابا کی بیماری کے باعث دکان سنبھالنا ان کے بس کا کام نہیں رہا تھا۔ اماں اپنے لاڈلے اکلوتے بیٹے کے کتنے واری صدقے جاتیں۔
انھیں پورا یقین تھا کہ وہ ہی ان کے بڑھاپے کا سہارا بنے گا کیونکہ بیٹیاں تو پرایا دھن ہوتی ہیں۔ مگر اماں کتنی سادہ لوح اور بھولی تھیں ۔ اماں ابا کو یہ پتا ہی نہیں تھا کہ جسے وہ اپنے سہارے کے طور پر پال پوس کر جوان کر رہے ہیں ، وہ اپنے پیروں پہ ، کھڑا ہو کر کسی اور کا پلو تھام کے انھیں ہمیشہ کے لیے بے سہارا چھوڑ کر بھی جا سکتا ہے۔
ابا کی دکان پر سودا سیلف لینے آنے والی عالیہ ، اس کے بھائی کو بھا گئی تھی۔ اس کا باپ چند مہینے پہلے اللہ کو پیارا ہوا تھا اور ماں بیٹی لوگوں کے کپڑے سی کر گزر بسر کرتی تھیں۔
کچھ تو جادو تھا اس کی اداؤں میں کہ بھائی خود سے پانچ چھ برس بڑی ، قبول صورت عالیہ سے شادی کا ارادہ باندھ بیٹھا اور اسی چکر میں وہ اسے بخوشی ادھار پر سارے گھر کا راشن بھی دیتا رہا تھا۔ گھر میں بات کھلتے ہی طوفان برپا ہوا تھا۔ سب سے زیادہ دھچکا اماں کو لگا۔
ابا بے چارہ تو بے بسی سے سارا تماشا دیکھنے پر مجبور تھا۔دو چھوٹے کمرے، ان کے سامنے ایک چھوٹا پورچ اور کونے میں ایک چھوٹا سا کچن- لوہے کی سلاخوں سے برآمدے کو بند کر کے کمروں کا حصہ بنایا گیا تھا۔ اس کے آگے ایک برائے نام صحن اور کونے میں ایک غسل خانہ ہے۔
یہ اس کی کل کائنات تھی، جس پر گھر والوں کے مطابق وہ اکیلا سانپ بن کر بیٹھا تھا۔ وہ یہیں پلا بڑھا، سب اس کی ماں اور باپ کو جانتے تھے۔ پڑوسی ہمدرد اور خیال رکھنے والے تھے، تب بھی اس کے پاس اکیلے رہنے کا وقت نہیں تھا۔
والد اور بھائی کی مخالفت کے باوجود نگہت نے بی اے تک تعلیم حاصل کی اور اب یہی تعلیم آمدنی کا ذریعہ بن گئی۔ سارا دن ایک نجی اسکول سرکھپا کے وہ اتنا کما لیتی کہ گھر چلایا جا سکے۔ شام میں محلے کے چھوٹے بچے ، اس سے ٹیوشن پڑھنے آتے تو کچھ پیسے بھی بن جاتے اور ویرانے میں ایک دو گھنٹے کے لیے بہار بھی چھا جاتی۔
سائیں سائیں کرتے گھر میں رنگ برنگی باتوں اور ہنسی کی دھیمی آوازیں گونجتیں ۔ شام کا مخصوص وقت جو وہ بچوں کے ساتھ گزارتی اس کے لیے بہترین وقت ہوتا۔ گھر کے بہت سے چھوٹے موٹے کام باہر سے دودھ، دہی، گوشت، سودا سلف وغیرہ لانے کا کام بھی بچے خوشی خوشی کر دیتے تھے۔
مگر شام ڈھلتے ہی تنہائی کا زہر رگوں میں اترنے لگتا۔ اتنے سال تنہا گزارنے کے بعد ، اب وہ اس نہج پر پہنچ گئی تھی کہ ذرا سے کھٹکے اور انہوئی آواز پر دل خزاں رسیدہ پتے کی مانند لرزنے لگتا اور کچی نیند پلو چھڑا کر کوسوں دور بھاگ جاتی۔
تب ساری رات اپنے چہرے پر کنندہ نظر کی بے شمار لکیروں اور بالوں میں اترتی چاندنی دیکھتے ہوئے ، وہ اکثر سوچتی کہ کاش باقی ہم جولیوں کی طرح میری بھی وقت پر شادی ہو گئی ہوتی تو آج میرے بھی لڑکپن کی عمر کو پہنچ چکے بچے ہوتے۔
جوانی شادی کے انتظار اور بیمار ماں باپ کی خدمت کرتے ہوئے کب گزری اسے پتا ہی نہیں چلا۔ خاندان میں جسے ضرورت پیش آتی قرعہ فال ہمیشہ اس کے نام نکلتا۔ کسی کے ہاں بچے کی پیدائش ہوتی یا شادی والا گھر ، کام کاج کے سلسلے میں سب کو اس کی یاد ستانے لگتی۔
اگر غلطی سے بھی وہ واپس جانے کا نام لے لیتی تو مزید باتیں سننی پڑتیں۔ ارے بھئی تمہارے پیچھے کون سا بچے رو رہے ہیں ۔ واپس جا کر کیا کرنا ہے؟ ادھر تمہاری راہ تکتا بیٹھا ہی کون ہے؟ اس جیسے بہت سے جملے اسے سننے کو ملتے اور جب اس کی ضرورت ختم ہو جاتی تو جملوں کی نوعیت خود بخود بدل جاتی۔
ہاں بہن اپنا گھر اپنا ہی ہوتا ہے۔ اپنے گھر سے بندہ دور رہ کر اداس ہو ہی جاتا ہے۔ اسکول سے زیادہ چھٹیاں لینا مناسب نہیں ۔ زیادہ دن گھر کا بند رہنا ٹھیک نہیں ہوتا ۔ گھر آباد ر ہے تو ہی اچھا ہے۔ ہم تو چاہتے ہیں تم رہو لیکن ظاہر ہے جو آیا ہے وہ واپس بھی جائے گا۔
لوگوں کی رنگ برنگی کڑوی باتیں اور دل شکن رویے اس نے تنہا سہے تھے۔ اتوار کے روز اس کی ایک سی روٹین ہوتی۔ صبح سویرے ہی واشنگ مشین لگا کر ہفتے بھر کے میلے کپڑے دھو لیتی۔
تفصیل سے گھر کی صفائی کرتی من پسند کھانا بناتی اور دوپہر میں جی بھر کر آرام کرتی کبھی کوئی محلے دار ملنے آجاتی تو وقت آسانی سے کٹ جاتا۔ کھانا کھا کر وہ آرام کی غرض سے لیٹ گئی تھی ۔ عصر کے وقت اس کی آنکھ دروازے پر مستقل ہونے والی دستک سے کھلی۔
بال لپیٹتے، سائیڈ پر دھرا دو پٹہ اٹھا کر اوڑھا اور پاؤں میں چپل پہن کے وہ جیسے ہی برآمدے میں آئی موسم کے تیور دیکھ کر ٹھٹک گئی۔ اللہ اللہ ! اتنی گھنگھور کالی گھٹائیں۔ لگتا ہے آج پھر بارش ہوگی۔ خود سے بولتے ہوئے وہ دروازے کی طرف بڑھ گئی۔
کنڈی کھول کر اس نے ایک جھٹکے سے دروازہ کھولا۔ محلے میں اس کے اکلوتے دوست کا دس سالہ بیٹا اظہر ہاتھ میں پلیٹ لیے اس کے سامنے کھڑا غضب ناک نظر آرہا تھا۔ وہ شرارت سے اسے دیکھ کر مسکرایا۔ السلام علیکم محترمہ! آپ پر سلامتی ہو! چلو اندر چلو اس نے اسے اندر جانے دیا، اظہر اس گھر سے واقف تھا۔
وہ اتوار کے علاوہ ہفتے میں چھ دن پڑھنے نہیں آتا۔ کیا لائے ہو؟ مس جی! امی نے آپ کے لیے بھیجا ہے۔ وہ کہہ رہی تھی کہ بارش ہونے والی ہے جلدی دو۔ پلیٹ اس کی طرف بڑھا دی گئی۔ اوہ اچھا! یہ کہنے کے لیے ماں کا شکریہ۔ یہ کہہ کر وہ گھر سے بھاگ گیا۔
گرم گلگلے چکھتے نگہت نے چائے کے لیے پانی چولہے پر رکھا۔ جب تک چائے تیار ہوئی تب تک گرج چمک کے ساتھ بارش شروع ہو گئی۔ بھاگ کر وہ کمرے سے ٹارچ اٹھالائی۔ لائٹ کا کوئی بھروسا نہ تھا۔ دن تو مصروفیت میں کٹ جاتا تھا پر شام ڈھلتے ہی اس پر یاسیت طاری ہونا شروع ہو جاتی تھی۔
خالی گھر کاٹ کھانے کو دوڑتا تو اس کا جی چاہتا کہ کہیں بھاگ جائے اور خود کو کسی رونق میلے میں گم کر دے مگر زمانے سے بغاوت کرنے کی جرات بھی تو نہ تھی اور آج تو حسین موسم میں تنہائی اور بارش طبیعت پر مزید گراں گزر رہی تھی۔
گھر کا سکون آئے دن اماں اور بھائی کی تکرار سے تہہ و بالا ہونے لگا تھا۔ دیکھ ماجد ، تو اس حرافہ کا خیال دل سے نکال دے۔ تیری شادی میں عالیہ سے کبھی نہیں کروں گی ۔ اماں اتنا کہتیں اور بھائی کی آنکھیں شرارے برسانے اور زبان آگ اگلنا شروع کر دیتی۔
اماں ، اس کا نام تمیز سے لے ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔ بیٹے کی بات اور لہجہ ماں کا مان چکنا چور کر دیتا۔ بھائی ! اماں سے تو کیسے بات کر رہا ہے؟ اس نے پہلی بار بھائی کوٹوکا تھا۔ تو چپ کر…… اماں کان کھول کے سن لے شادی تو میں بس عالیہ سے ہی کروں ۔
بھائی غرایا تو وہ جھاگ کی طرح بیٹھ گئی تھی۔ تجھے اچھے سے پتا ہے کہ کئی سالوں سے تیری بہن کا رشتہ خالہ کے ہاں طے ہے۔ اب تیری خالہ چاہتی ہے کہ اس کی بیٹی کا رشتہ تجھ سے ہو جائے۔ وہ چاہتی ہے نا میں تو نہیں چاہتا !کیا کمی ہے گلشن میں ؟
خوب صورت ہے ، کم عمر اور جلد ایف اے بھی کر لے گی۔ گھر کی دیکھی بھالی بچی ہے اور کیا چاہیے؟ کمی یہ ہے کہ وہ مجھے پسند نہیں فیصلہ سنا کر وہ غصے سے تلملاتا ہوا گھر سے نکل گیا اور ماں، بہن کو وسوسوں کی نظر کر گیا۔ وہی ہوا جس کا انھیں ڈر تھا۔
خالہ انکار سنتے ہی ہتھے سے اکھڑ گئیں۔ اگر میری بیٹی کے لیے تمھارے دلوں میں جگہ نہیں تو سن لو تمہاری بیٹی کے لیے بھی میرے گھر میں رتی برابر جگہ نہیں ۔اماں نے بیٹے اور بہن کو سمجھانے بجھانے کی ہر ممکن کوشش کی تھی۔ لیکن واسطے، منتیں ترلے کچھ بھی کام نہیں آیا تھا۔
دیکھ ماجد ، تو میرا سوہنا پتر ہے۔ بہن کا سوچ اس کا کیا بنے گا ؟ سالوں پرانا رشتہ ٹوٹنے پر دنیا ہم پر تھوکے گی۔ پھر کیسے ہو گی اس کی شادی ؟ کچھ نہیں ہوتا اماں، اس کے لیے کوئی اور رشتہ دیکھ لے۔ میں عالیہ کو زبان دے چکا ہوں۔ماں کے سوہنے پتر پر ذرہ برابراثر نہیں ہوا تھا۔
ہاں تو تجھے اپنی زبان کی فکر ہے پر ماں کی زبان کی نہیں ۔ اماں! کیا مجھ سے پوچھ کر تو نے اپنی بہن کو زبان دی تھی ؟ دیکھ میں بتا رہی ہوں میری بات نہ مانی تو تجھے اپنا دودھ نہیں بخشوں گی ۔ بے بس ماں نے اپنی طرف سے آخری حربہ آزمایا۔
اماں ، نہ ہی تم نے دنیا کا کوئی انوکھا کام کیا اور نہ ہی مجھ پر کوئی احسان کیا تھا۔ ساری مائیں ہی اپنے شیر خوار بچوں کو دودھ پلاتی ہیں۔ ویسے بھی نگہت تیری اولاد ہے میری نہیں۔ میں کیوں اس کے لیے اپنی خوشیوں کی قربانی دوں ؟
خود سر بیٹے کے پاس اگلنے کے لیے زہر کی فراوانی تھی بے بس ماں کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں بچا تھا۔ ایک دن اچانک اس نے ان کے سر پر بم پھوڑا تھا۔ خاموشی سے باہر ہی باہر ایک دوست کے گھر، سادگی سے نکاح کر کے وہ عالیہ کو بیاہ کر لے آیا تھا۔
ابا اور اماں بیٹے کو بہو کے ساتھ دیکھ سکتے میں رہ گئے تھے۔ تو یہ دن دیکھنے کے لیے اللہ سے دعائیں مانگ کر بیٹا لیا تھا ؟ ماں کا سہارا ہی کافی تھا۔ اماں گھر کی بڑی اور اسے زمانے کے سرد گرم سے بچا کر بیٹھی تھیں۔
ان کی زندگی میں ہی بھائی ، اپنی بیوی کے ایک دور پار کے طلاق یافتہ کزن کا رشتہ اپنی کنواری بہن کے لیے لایا تھا۔ اس کے مطابق رشتہ بہت اچھا تھا۔ یہ کیسا رشتہ ہے؟ چالیس کے اوپر اور طلاق یافتہ۔
دونوعمر بچوں کا باپ، نہ کوئی ذریعہ آمدنی نہ کوئی ڈھنگ کا کام کاج اماں، نگہت کو کب تک گھر بٹھائے رکھنا ہے؟ بے فکر رہ یہ وہاں بھوکی نہیں مرے گی ۔ عمر بڑھ رہی ہے یہ نہ ہو پھراسے ایسا رشتہ بھی نہ ملے۔ نگہت ستائیس کی ہے اور وہ دولہا جو پینتالیس کے قریب۔
میں نے سنا ہے کہ وہ چرس بھی پیتا ہے، کیسے دے دوں ایسے ویسوں کو اپنی کنواری پڑھی لکھی گنوں والی بیٹی کا رشتہ؟ بس اماں، تو چاہتی نہیں کہ اس کا رشتہ ہو ۔ ہم نے تو بھلے کا سوچا تھا پر تجھے عقل ہی نہیں تو ہم کیا کریں۔ چل اٹھ عالیہ چلیں ۔
بیوہ ماں کو غصے سے باتیں سنا کر بیوی کا ہاتھ تھام کے وہ شاید اس گھر کی دہلیز ہمیشہ کے لیے پار کرگیا تھا۔ چند برس بعد وہ ماں کے جنازے پر اجنبیوں کی طرح شریک ہوا۔ آبائی گھر اور تنہا بہن سے اس نے رہا سہا تعلق بھی توڑ لیا-
ابا نے اپنی زندگی میں ہی دکان بیٹے کے اور ڈھائی مرلے کا گھر بیٹی کے نام کر دیا تھا۔ بے چاری نگہت کی جوانی تو ماں باپ کی خدمت کرتے اور ہم سفر کے انتظار میں گزرگی تھی۔ٹیوشن پڑھنے آئی بیٹھی، کم و بیش ایک جیسی رکھنے والی دونوں جڑواں بچیوں پر نظر پڑتے ہی وہ ٹھٹکی۔
وہ دونوں ہی ڈری سہمی سی بچیاں تھی۔ اس نے کبھی انھیں فضول گوئی اور شرارتیں کرتے نہیں دیکھا تھا۔ سنجیدگی اور متانت ان کے معصوم چہروں پر ہر وقت چھائی رہتی۔ پانچ سالہ فضا اور فائزہ انگلش کا قاعدہ کھولے بیٹھی تھیں۔
بغیر دھلے منہ شکن زدہ لباس اور کندھوں پر ڈھلکتے بکھرے بال ساری کہانی سنا رہے تھے۔ خالہ لطیفاں کی کہی باتیں اس کے ذہن میں تازہ ہوئیں۔ ماں تو انھیں پیدا کرتے ہی خالق حقیقی سے جا ملی تھی۔
پیدا ہونے کے ساتھ ہی دونوں بچیوں کی دیکھ بھال اور پرورش کی ذمہ داری بوڑھی دادی کے سر پڑ گئی تھی مگر سال پہلے وہ بھی مر گئی تو ساری ذمہ داری باپ کے سر پر آگئی۔ گھر اپنا ہے اور باپ سرکاری محکمے میں کلرک ہے۔ اب دیکھو کہ بے چارہ باپ نوکری کرے یا بچیاں سنبھالے؟
بچوں کی تربیت اور دیکھ بھال کوئی سمجھ دار عورت ہی کر سکتی ہے۔ خالہ لطیفاں کی اس کی ماں سے اچھی سلام دعا تھی اور وہ واحد تھیں جو اس سے کبھی بھی غافل نہیں رہی تھیں۔ دیکھ نگہت، تو میری بیٹیوں جیسی ہے۔
مجھے تو اب بھی ویسے ہی عزیز ہے جیسے تیری ماں کی تو زندگی میں تھی ۔ خالہ، میں جانتی ہوں۔ پھر تو یہ بھی جانتی ہے کہ مجھے تیری فکر کتنا ستاتی ہے۔ جوانی ڈھل رہی ہے کب تک اکیلی رہے گی ؟ ابھی تو جان ہے حالات سے لڑے گی مگر کب تک؟ میری دھی عورت کو ساتھی کی ضرورت ہوتی ہے۔
وہ سر جھکائے انہیں سنتی رہی ۔ اس دن خالہ کو بات جاری رکھنے کا حوصلہ ملا۔ صدیق بہت شریف اور سلجھا ہوا انسان ہے۔ میں اس کے خاندان کو پندرہ سال سے جانتی ہوں ۔ کوئی بری عادت نہیں، پان سگریٹ ، کوئی نشہ کچھ نہیں۔ سادا بھلا مانس انسان ہے۔
اپنا گھر، نوکری سب کچھ ہی تو ہے ۔ ہاں سب کچھ تو ہے دو بیٹیوں سمیت ۔ وہ بولی تو اسے اپنی ہی آواز اجنبی سی لگی – میری نظر میں کچھ لڑکے بھی ہیں مگر ان میں سے کوئی بھی اتنا سلجھا ہوا اور قابل بھروسا نہیں جو تجھے خوش دلی سے قبول کرے اور وہ عزت قدر بھی دے جو ہر عورت اپنے شوہر سے چاہتی ہے۔
خالہ کے سادگی سے کہنے پر اس پہ گھڑوں پانی پڑا۔ عام سے محلے میں رہنے والی ، مناسب شکل و صورت کی چھتیس سالہ نگہت کو اگر کوئی بن بیاہا ملتا بھی تو اس کی نظر اس کے گھر پر ہی ہوتی۔ وہ جیسی تھی، اسے ایسے ہی قبول کرنے والے من چاہے قسم کے مرد معاشرے میں آٹے میں نمک کے برابر تھے۔
اسے تمہارے گھر اور نوکری سے کوئی سروکار نہیں۔ مضبوط سہارا اور پرسکون زندگی کے بدلے اگر تم بن ماں کی بچیوں کو شفقت اور پیار دو گی تو اس سے تمھاری عزت اور بڑھ جائے گی۔ میری طرف سے کوئی زور زبردستی نہیں ہے تم اچھے سے سوچ لو۔ پھر جو فیصلہ ہو مجھے بتا دینا کہتے ساتھ ہی خالہ نے اٹھنا چاہا تھا۔
وہ سوچ چکی تھی خالہ لطیفاں کے چہرے پر سکون چھا گیا تھا۔اس کے چھوٹے سے گھر میں معمول سے ہٹ کر رونق تھی۔ کچھ فاصلے پر بیٹھی دونوں بچیاں آنکھوں میں اشتیاق سموئے اسے دیکھے جا رہی تھیں ۔ اپنی مس کو اس حلیے میں دیکھنا ان کے لیے بڑی انوکھی بات تھی۔
خالہ لطیفاں سمیت محلے کی کچھ خواتین کمرے میں موجود تھیں۔ اپنی ہتھیلی پر بنی مہندی کی پتی کو بغور دیکھتے ہوئے اس کا دھیان ماضی میں بھٹک رہا تھا۔ آج سے پہلے تو اسے اماں ابا اتنی شدت سے یاد نہیں آئے تھے۔
اپنوں کی کمی کبھی کبھار اتنی شدت سے محسوس ہوتی ہے کہ ہر منظر دھندلا جاتا ہے، اس کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو رہا تھا۔ ابا اماں کے چہرے اس کی جھکی آنکھوں میں چھب دکھا رہے تھے اور منتظر نگاہیں چوری چوری کھلے دروازے کی طرف اٹھ رہی تھیں۔
بھائی کا خیال آتے ہی آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ گرے۔ بھری دنیا میں اس کا ایک ہی تو خونی رشتہ بچا تھا اور وہ بھی… کاش۔ مولوی صاحب آگئے ہیں ۔ کسی نے اطلاع دی۔ دل کی دھڑکنیں اتھل پھتل ہوئیں –
نکاح خوان کی ساتھ اپنے بھائی کو اندر دخل ہوتے دیکھ ، نگہت نے اپنے بے چین دل میں ڈھیروں سکون اترتا محسوس کیا۔ اس نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اکلوتے بڑے بھائی سے اس کے گھر جا کر بات کرنا رائیگاں نہیں گیا تھا۔ بھائی کا ہاتھ سر پر ٹھہرتے ہی ضبط کے تمام بندھن ٹوٹ گئے ۔
ایجاب وقبول کے مراحل کب طے ہوئے اسے پتا ہی نہ چلا۔ خالہ نے صدیق کے متعلق جو بھی بتایا اس نے انہیں اپنے لیے اس سے بڑھ کر پایا ۔ شوہر کی محبت پاتے ہی وہ گلاب کی طرح کھل گئی تھی۔ چند ہفتوں میں ہی عمر کے کئی برس اس کے چہرے سے چھٹ گئے ۔
ذہنی و جسمانی سکون خوش باش دل اور ضرورت کی ہر چیز ، بے شک دیر سے مگر اسے صبر کا پھل میٹھا نصیب ہو گیا تھا۔ اسکول کی نوکری کو تو اس نے خیر آباد کہہ دیا ، مگر شام میں بچوں کو ٹیوشن پڑھائی اس نے نہیں چھوڑی تھی۔
بچے اب دو گلیاں چھوڑ کر ٹیچر کے نئے گھر میں ٹیوشن پڑھنے آتے تھے۔ بچے بھی خوش تھے اور وہ بھی۔ شوہر کے توسط سے اپنا گھر اس نے کرائے پر چڑھا دیا تھا۔صبح سے گھر میں ہنگامہ تھا۔ وہ کچن میں مصروف تھی اور لڑکیاں بھاگ کر اسے چیزیں دے رہی تھیں۔
ایک مختلف اور خوشگوار اتوار اس کی زندگی میں عمروں کے بعد آیا۔ فضا، بیٹا، میرے لیے کمرے میں ٹوکری لے آؤ۔ اس نے کھانا پیک کرتے ہوئے عجلت سے آواز دی۔ یہ لیں ماں۔ فائزہ پکنک ٹوکری لئے کھڑی تھی۔ میری ماں نے مجھے اسے لانے کو کہا – اسی وقت فضا رو پڑی اور زور زور سے ہنس پڑی۔
کوئی مسئلہ نہیں . میں نے تم دونوں کے کپڑے اتار دیے ہیں۔ کمرے میں آؤ، میں ابھی آکر تیاری کر لیتی ہوں۔ اس کے کہنے پر دونوں اپنے کمرے کی طرف روانہ ہو گئے تھے۔ ڈسپوزایبل پلیٹیں، سینڈوچ، کباب اور بریانی کے پیالے پیک کر کے ٹوکری میں رکھ کر اس نے صدیق کو کچن کے دروازوں کے درمیان کھڑا پایا۔
ارے، آپ یہاں کھڑے ہیں، کچھ کھانا ہے- بہت بھوک لگی ہے۔ سب کچھ تیار لگتا ہے۔ ٹوکری میں دیکھتے ہوئے کہا۔ جی بالکل ! وہ مسکرادی۔ میں ٹیکسی لے آؤں، آپ کو کتنی دیر لگے گی؟ پیار سے اسے دیکھتے ہوئے وہ استفسار کر رہے تھے۔ لے آئیں! بس آدھا گھنٹہ اور لگے گا۔
بچیوں کو تیار کر کے میں فٹافٹ خود تیار ہو جاؤ گی۔ جی بہتر! کہہ کر باہر کی طرف جاتے ہوئے اپنے شوہر کو دیکھ کر اس کا رواں رواں اللہ کا شکر ادا کر رہا تھا۔ بے شک الله کی گھر میں دیر ہے اندھیر نہیں ! اس کی بے موسمی سی زندگی میں بہار کا موسم ! ہمیشہ کے لیے آٹھہرا تھا۔