المناک داستان
کہانیوں کے سلسلے میں کئی بار مختلف جیلوں میں جانے کا اتفاق ہوا۔ یہ کہانی مجھے راجن پور کی جیل سے حاصل ہوئی، جہاں قتل کے الزام میں کچھ قیدی خواتین سے ملاقات ہوئی، ان ہی میں سے ایک جواں سال لڑکی انیلہ بھی تھی۔
وہ راجن پور کے ایک قریبی دیہات کی رہنے والی ایک خوب صورت لڑکی تھی۔ جب میں اس سے ملی، اس کی خوب صورتی مرجھائی ہوئی تھی۔ رنگت جو کبھی سرخ و سفید رہی ہو گی ، اب زرد ہو چکی تھی۔
اس کی بڑی بڑی آنکھوں میں عجیب سی بے قراری اور کچھ وحشت بھی تھی۔ جب میں نے سوال کیا کہ تم کیونکر قتل کے جرم میں یہاں ہو ؟ جبکہ تم اتنی نازک اندام اور نرم خو لگتی ہو ، تو تھوڑی دیر چپ رہنے کے بعد بالآخر وہ گویا ہوئی۔
انسان جذبات و غصے میں بہت کچھ کر گزرتا ہے۔ مجھ سے بھی یہ غلطی اس وجہ سے سرزد ہوئی کہ بچپن سے ضدی اور تند خو تھی۔ سب مجھے جھگڑالو کہتے تھے لیکن میں خواہ مخواہ جھگڑا نہیں کرتی تھی۔
جب کوئی میری چیز ہتھیا لیتا تو مجھ سے یہ برداشت نہ ہوتا اور میں جھگڑ پڑتی تھی۔ بچپن سے ہی مجھ میں احساس ملکیت کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ مجال ہے میرے بہن، بھائی میری کسی چیز کو ہاتھ لگاتے۔
میری اجازت کے بغیر وہ ایسا کرتے تو میں ان سے بھر جاتی تھی۔ انیلہ نے خاصی لمبی تمہید باندھی۔ مجھے دیگر خواتین کا بھی حال احوال معلوم کر کے ڈی سی صاحب کو رپورٹ بھجوانی تھی، کیونکہ جیل میں قیدی خواتین کے ساتھ تسلی بخش سلوک کے بارے میں رپورٹ بنانے کا کام بھی میرے ذمے لگایا گیا تھا۔
میں نے انیلہ سے کہا۔ میں تمہاری داستان سننے دوبارہ آئوں گی ۔ ابھی وقت کم ہے، کیا تم مجھے اپنے گھر والوں کا پتا بتا سکتی ہو۔ میں ان سے بھی ملنا چاہتی ہوں۔ اس نے گھر کا پتا بتادیا۔
اگلے روز میں انیلہ کے بتائے ہوئے پتے پر گئی تو سب سے پہلے اس کی کزن عابدہ سے ملاقات ہوئی۔ وہ بہت خوش اخلاقی سے ملی، تب میں نے اپنے آنے کا مقصد بتایا کہ انیلہ کے بارے جاننے آئی ہوں۔
میری اس کے ساتھ جیل میں ملاقات ہوئی ہے، لیکن وہاں اس سے وقوعہ کے بارے میں تفصیل نہ جان سکی۔ عابدہ بولی۔ میں آپ کو بتاتی ہوں۔ گرچہ اپنے گھر کی اس حقیقت پر بات کرتے ہوئے میرے لب کا نپتے ہیں۔
اس قسم کی داستانیں کبھی کبھار ہی کسی گھرانے میں جنم لیتی ہیں مگر اتنی دردناک شاید ہی کوئی ہو گی، جتنی ہماری داستان ہے۔ پانچ سال پہلے کا یہ واقعہ اس طرح آنکھوں کے سامنے گھومتا ہے ، جیسے کل ہی کی بات ہو۔
انیلہ میری کزن ، عادات واطوار سے اچھی تھی مگر ضدی بہت تھی۔ باقی ساری باتیں اس کی اچھی تھیں۔ خوب صورت تھی، ہم سے بہت پیار کرتی تھی، تب ہی امی اس کو بہو بنانا چاہتی تھیں۔
جب وہ پیدا ہوئی، تب ہی میری ماں نے اسے اپنے بڑے بیٹے کے لیے مانگ لیا تھا۔ وہ ٹھیکرے کی مانگ ہو گئی اور ہمارے رس رسم ورواج کے مطابق میری امی نے اس کے گلے میں سونے کی مالا ڈال دی۔ وہ پالنے میں تھی اور میرے بھائی جان تب محض تین برس کے تھے۔وقت کا پنچھی اڑتارہا۔
ایک روز انیلہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ کھیل رہی تھی۔ وہ دلہن بنی ہوئی تھی اور سہیلیاں گیت گا رہی تھیں۔ اس وقت انیلہ چھ سال کی تھی، چھوٹی بچیاں اکثر ایسے کھیل کھیلتی ہیں۔
اتنے میں بچیوں نے شور مچادیا کہ دولہا آگیا، دولہا آگیا اور میرے بھائی ہمایوں کو پکڑ کر انیلہ کے پاس لے آئیں۔ ہمایوں نے کہا۔ ہم انیلہ سے شادی نہیں کریں گے ، ہم تور خسانہ کو اپنی دلہن بنائیں گے۔ رخسانہ ، انیلہ کی بہت ہی خوب صورت سہیلی تھی۔
اس پر انیلہ غصے میں اٹھ کھڑی ہوئی اور ہمایوں کے بال زور سے کھینچنے لگی۔ بولواب، کہ تم ہم سے شادی کرو گے یا نہیں؟ میرے بال چھوڑو۔ ہمایوں چلانے لگا۔ بچوں کی چیخ و پکار سن کر گھر والے آگئے اور ان کی حرکتوں پر ہنسنے لگے۔
بچپن کے کھیل بچپن کے ساتھ گئے اور انیلہ ، ہمایوں کی تصویر دل میں سجائے جوان ہو گئی۔ اس نے میٹرک میں اسکول میں اول پوزیشن حاصل کی۔ وہ آگے پڑھنا چاہتی تھی مگر ماں نے کہا۔
بیٹی کو ہم بہورانی بنائیں گے ، کوئی نوکری تو نہیں کروانی، جو اور پڑھائیں۔ اب انیلہ صرف گھر کے کام میں مصروف رہتی۔ گھر میں ہر وقت اس کی ، ہمایوں کے ساتھ شادی کے چرچے ہوتے رہتے تھے ، جنہیں سن کر وہ مسکراتی رہتی۔
ہمایوں نے میٹرک کے بعد کالج میں داخلہ لے لیا۔ وہ ڈاکٹر بننا چاہتا تھا۔ انیلہ جیسی ذہین اور محبت کرنے والی لڑکی کے ساتھ رہ کر وہ کافی محنتی اور لائق ہو چکا تھا۔ اس کی منگیتر اسے ہمہ وقت پڑھنے کی تقلین کرتی اور محنت کے ساتھ ، ہمت و حوصلہ بڑھاتی۔
میر ابھائی ہمیشہ کہتا۔ ہاں، تمہاری خاطر مجھے محنت کرنا پڑے گی اور ہر صورت ڈاکٹر بھی بننا پڑے گا، مگر میری جدائی برداشت کرنا ہو گی، کیونکہ میڈیکل کالج تو لاہور میں ہے۔
جب تک بھائی کی تعلیم جاری تھی ، میری یہ دیوانی کزن ، ہفتے کے سات دن گن گن کر گزارتی تھی۔ جب وہ گھر آتا، انیلہ مکان کی چھت پر کھڑی اسے دیکھتی ہوتی۔ ہمارے گھر ساتھ ساتھ ہی تھے۔ تب ہی چھت پر چلی جاتی تھی۔ اس روز بھی ہمایوں گھر آیا ہوا تھا، جب انیلہ ہمارے گھر آئی۔
وہ بظاہر امی کو کھانے پر مدعو کرنے آئی تھی لیکن دراصل وہ کسی کا دیدار کرنے آتی تھی۔ وہ میرے کمرے میں آگئی، میں پڑھ رہی تھی۔ وہ بولی۔ کیا پڑھ رہی ہو ؟ امتحان کی تیاری کر رہی ہوں۔
میں نے جواب دیا۔ اچانک اس کی نظر شیلف پر رکھی ہمایوں بھائی کی تصویر پر پڑ گئی۔ اس نے فریم اٹھا کر دوپٹے میں چھپایا اور ہمارے گھر سے باہر نکل رہی تھی کہ تب ہی امی سے ٹکرائو ہو گیا۔ وہ کھیت سے تازہ ساگ لے کر آرہی تھیں ، انیلہ کو روک کر کہنے لگیں۔
بیٹی میں نے اسے دو حصوں میں تقسیم کر لیا تھا۔ ایک حصہ تم لیتی جائو۔ وہ بھلا کیسے ساگ کے گٹھر کو تھامتی، اس نے تو دونوں ہاتھوں سے دوپٹے کے نیچے چھپائی تصویر تھامی ہوئی تھی۔ ساگ پکڑتی تو تصویر گر جاتی۔
وہ بولی۔ خالہ ، میں گھر جارہی ہوں، تھوڑی دیر بعد واپس آکر لے جائوں گی۔ تب امی نے اسے پکڑ کر کہا۔ تمہارے ہاتھ خالی ہیں، ابھی لے جائو۔ یہ کہہ کر انہوں نے اس کے ہاتھ کو کھینچا تو سینے سے لگی تصویر نیچے گر گئی اور فریم کا شیشہ ٹوٹ گیا۔
امی یک دم گھبرا کر پیچھے ہٹ گئیں اور انیلہ شرم سے منہ چھپائے وہاں سے بھاگ آئی۔امی کو اب اندازہ ہوا کہ وہ ہمایوں سے کتنی محبت کرتی ہے۔ ایک طرف انیلہ تھی جو اُن کے بیٹے کی محبت میں بہت دور جاچکی تھی-
اور دوسری طرف ہمایوں تھا، جو وقت کے ساتھ ساتھ بدل چکا تھا۔ وہ رخسانہ کی محبت میں ماں باپ تک کو چھوڑنے کو تیار تھا۔ ان دنوں وہ میڈیکل کے تیسرے سال میں تھا۔ رخسانہ امیر ماں باپ کی بیٹی تھی۔
اس نے گریجویشن مکمل کر لی تھی اور اب یہ لوگ اسلام آباد چلے گئے تھے۔ ہمایوں اس کی خاطر اب چھٹیوں کے دنوں ہیں اسلام آباد جانے لگا۔ وہ اس سے ملتا رہتا تھا۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد رخسانہ نے جاب کر لی اور ہمایوں ڈاکٹر بن گیا اور ایک اسپتال میں کام کرنے لگا۔ ایک دن گھر آیا تو ماں نے کہا۔ بیٹے، تمہاری منگیتر کی عمر نکلی جارہی ہے۔ اگر مناسب سمجھو تو تم دونوں کو بچپن کے رشتے کے مطابق پکے بندھن میں باندھ دیں۔ ہمایوں نے جواب دیا۔
امی میں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتا، آپ انیلہ کے والدین سے کہہ دیں کہ میرا انتظار نہ کریں۔ بیٹے کی بات سن کر ماں نے خفگی سے کہا۔ تمہیں میری بات ماننا ہو گی۔ تم نے اگر انیلہ کو ٹھکرایا، تو میں تم کو کبھی معاف نہ کروں گی۔
اس نے ماں کی بات سنی ان سنی کر دی اور گھر سے چلا گیا۔ جب کافی دنوں تک گھر نہ آیا تو امی کو فکر ہوئی، انہوں نے مجھ سے کہا۔ بیٹی تمہارا بھائی ناراض ہو کر چلا گیا ہے ، چلواس سے ملنے چلتے ہیں۔ ابھی ہم یہ بات کر رہے تھے کہ انیلہ آگئی۔
اس نے یہ بات سن لی، پوچھا۔ آپ کیوں جارہے ہیں؟ امی نے بتایا کہ ہمایوں مجھ سے کچھ خفا ہے ، اس لیے اس کو دیکھنے جارہے ہیں۔ وہ بولی۔ خالہ میں بھی آپ کے ساتھ چلوں گی۔
امی نے بہت روکا، مگر وہ ضدی بہ ضد ہو گئی۔ آخر کار ہم تینوں میرے چھوٹے بھائی سلمان کے ہمراہ اسلام آباد روانہ ہو گئے۔ جب ہم اس اسپتال پہنچے جہاں بھائی کام کر رہے تھے ، وہ ہم کو نہ ملے، البتہ جس ڈاکٹر کی ڈیوٹی تھی۔
جب اسے بتایا کہ والدہ اور بہن ملنے آئی ہیں، تو اس نے بھائی کی رہائش کا پتا دے دیا۔ ہم وہاں پہنچے۔ کوٹھی کے گیٹ پر تالا لگا ہوا تھا اور چوکیدار باہر موجود تھا۔ اس نے بتایا کہ تھوڑی دیر انتظار کر لیں ، وہ آتے ہی ہوں گے۔
یہ کہہ کر چو کیدار چلا گیا۔ اس وقت مغرب ہو رہی تھی۔ ہمیں انتظار کرتے ہوئے آدھ گھنٹہ گزر چکا تھا اور بھائی ابھی تک نہ آئے تھے۔ امی بھی اب پریشان اور گم صم با ر گم صم بیٹھی تھیں۔ مجھے بھائی پر غصہ آرہا تھا، نما –
جس کو دقتوں سے پڑھا لکھا کر ماں نے ڈاکٹر بنایا اور اب اس طرح ، اس کے دروازے کے ساتھ فقیروں کی طرح بیٹھی تھیں۔ جب کافی دیر گزر گئی اور رات ہونے لگی، تو سلمان بولا۔ امی واپس گھر چلتے ہیں یا پھر کسی ہوٹل میں چل کر رہنا ہو گا۔
ہم نے بھائی کو اطلاع نہ دی اور گھر سے چل پڑے۔ جانے وہ کس کام م سے سے کے نکلے ہوئے ہیں کہ ابھی تک نہیں پہنچے۔ ڈیوٹی ڈاکٹر نے تو کہا تھا کہ ڈیوٹی ختم ہوتے ہی گھر پرچے چلے گئے ہیں۔ امی بولیں۔ جب تک ہمایوں نہیں آجاتا، میں یہیں بیٹھی ہوں۔ آخر کسی وقت تو آئے گا۔
ادھر انیلہ تھی کہ اس کی نظر راستے سے ہٹتی نہ تھی ، وہ مسلسل سڑک کی طرف دیکھ رہی تھی۔اچانک ایک گاڑی گیٹ کے سامنے آکرر کی۔ اس میں سے ہمایوں بھائی اور ان کے پیچھے ایک عورت اتری، جس کے کٹے ہوئے بال شانوں پر بکھرے تھے۔
چست لباس میں اس کا انگ انگ نظر آرہا تھا۔ جب وہ دونوں آگے بڑھے، امی نے اٹھ کر بے اختیار پکارا۔ ہمایوں بیٹا ! تم آگئے۔ بھائی نے چونک کر دیکھا۔ ماں تو بیٹے سے لپٹ گئی، مگر ساتھ آنے والی عورت کھڑی دیکھتی رہی۔
تب ہی اس نے انیلہ کو دیکھا، وہ آگے بڑھی تاکہ اس سے ملے مگر انیلہ پیچھے ہٹ گئی۔ تم نے مجھے پہنچانا نہیں انیلہ ! وہ عورت بولی۔ میں ، تمہارے بچپن کی سہیلی، یاد ہے ہم گڑیاں پٹولے کھیلا کرتے تھے۔
اب ہمایوں گویا ہوئے۔ انیلہ یہ تمہاری سہیلی ہے رخسانہ۔ اور مجھ سے کہا۔ یہ بھا بھی ہے تمہاری ،ان سے گلے ملو۔امی ساری بات سمجھ چکی تھیں۔ ان کو جس بات کا ڈر تھا، وہ ہو چکی تھی۔ وہ رخسانہ کو جانتی تھیں اور اس کے والدین کو بھی۔
وہ چپ کھڑی ، رخ رخسانہ کی طرف دیکھتی تھیں اور کبھی انیلہ کی طرف۔ وہ رخسانہ کو بچپن میں بہت پیار کرتی تھیں۔ اچانک ان کے منہ سے یہ الفاظ نکلے ۔ اب رخسانہ ہماری بیٹی ہے ، سب اسے سلام کرو۔
انیلہ تم بھی بھابھی سے گلے ملو، مگر انیلہ اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوئی۔ اس کا چہرہ سیاہ ہو گیا۔ اس سے پہلے امی کچھ اور کہتیں ، وہ گیٹ کھول کر باہر چلی گئی۔ مجھے اور چھوٹے بھیا کو امی کے اس طرح بدل جانے پر بہت صدمہ ہوا اور ہم دونوں بھی انیلہ کے پیچھے باہر چلے گئے۔
امی ہمیں پکارتی رہ گئیں۔ سلمان بھیانے کہا۔ آپ رہے اپنی بہو اور بیٹے کے ساتھ ، ہم گھر جارہے ہیں۔ بڑے بھائی نے روکنے کی کوشش کی مگر انیلہ نہ رکی تو ہم نے بھی اسے اکیلا نہ چھوڑا۔
اس کے ساتھ بس میں واپس گھر کو لوٹ آئے۔ تمام سفر اس نے مجھ سے بات نہ کی ، بس کھڑ کی سے باہر دیکھتی رہی۔ سفر ختم ہوا تو اس کو گھر پہنچا کر ہم اداس گھر چلے آئے۔ ہم نے گھر میں ذکر کیا، ایک آدھ رشتہ دار کو پتا چلا اور اس طرح سارے گائوں کو پتا چل گیا کہ ہمایوں نے اسلام آباد میں شادی کر لی ہے۔
انیلہ کی سہیلیاں اس سے سوال کر تیں، کچھ اسے بد نصیب کہتیں، کچھ تسلی دیتیں مگر وہ کسی سے کچھ نہ بولتی۔ ماں، باپ، بہن، بھائیوں ، سب سے اس نے گفتگو کا سلسلہ ترک کر دیا۔
اب نہ وہ ہستی تھی، نہ مسکراتی تھی، بس ایک خاموشی تھی جو اس کے لبوں پر طاری تھی۔ پندرہ روز بعد امی ہمایوں بھائی اور رخسانہ بھابھی کو لے کر گھر آگئیں۔ رخسانہ امیر باپ کی بیٹی تھی، جہیز میں جائیداد لائی تھی، کسی نے بھی بھائی سے باز پرس نہ کی۔ دل میں جو غم تھا، د بالیا۔
اوپری دل سے ہر کوئی ان کو مبارک باد کہہ رہا تھا۔ امی سب کے ساتھ ہنس ہنس کر باتیں کر رہی تھیں، جیسے انیلہ کو بھلا چکی ہوں۔ حالانکہ وہ ان کی بہن کی ہی نہیں ، دیور کی بھی بیٹی تھی۔
شاید امی رخسانہ کی دولت اور اونچی سوسائٹی سے مرعوب ہو چکی تھیں یا پھر ہمایوں کی محبت نے ان کو مجبور بنادیا تھا۔ دن بھر آنے جانے والوں کا تانتا بندھا رہا۔ رات کو دیر تک جاگنے سے سب ہی تھک گئے۔ امی نے رخسانہ بھا بھی اور بھائی ہمایوں کا بستر اوپر والے کمرے میں لگادیا، وہ سونے چلے گئے۔
دونوں جلد گہری نیند میں ڈوب گئے۔دوسری طرف، دیوار سے ادھر ، انیلہ کے کان ہمارے گھر کی مبارک بادیاں سن رہے تھے۔ وہ سخت مضطرب تھی، درد فراق سے تڑپ رہی تھی۔
طرح طرح کے خیالات اس کے دماغ کو سلگار ہے تھے۔ وہ ان کو جھٹک دینا چاہتی تھی مگر تو ہین کا احساس چین نہ لینے دے رہا تھا۔ بچپن کا منگیتر ، اس کا محبوب، جس کے خیال میں اس نے اب تک کی زندگی کا ایک ایک پل گزار تھا، اس کی سہیلی کے پہلو میں چین کی نیند سورہا تھا۔
یکایک نہ جانے اسے کیا ہوا، وہ دوڑتی ہوئی اوپر گئی، اپنی طرف کے زینے سے چھت پر پہنچی، اس کے ذہن میں دھما کا سا ہوا، جب وہ چلتی ہوئی اس کمرے کی طرف آئی، جس میں بھائی اور بھا بھی سورہے تھے، کھڑکی سے خوشبو کی لپیٹیں آرہی تھیں ، اس نے جھانک کر دیکھا۔
مدھم روشنی میں بستر پر دونوں محو خواب تھے۔ اس کے غمزدہ دل سے آواز آئی کہ آج موقع ہے اپنے دکھ اور بے وفائیوں کا بدلہ لینے کا، ورنہ یہ پنچھی دوبارہ ہاتھ نہ آئے گا۔
تب اس نے اپنی جان کی پروانہ کرتے ہوئے ، دیوار کے ساتھ رکھا ہوا ٹوکا اٹھا لیا۔ انتقام کی آگ اس کے دل میں بھڑک گئی تھی۔ وہ ٹو کا لیے ان کے کمرے میں داخل ہوئی، جہاں زیر و کا بلب جل رہا تھا، ایک نظر سوئے ہوئے نو بیاہتا جوڑے کو دیکھا اور اگلے لمحے ، بغیر کچھ سوچے سمجھے وار کر دیا۔
پہلا وار رخسانہ بھابھی پر پڑا اور ایک چیخ بلند ہوئی۔ بھائی کی آنکھ کھل گئی۔ گھر کے لوگ بھی جاگ پڑے تو وہ ٹوکا وہیں پھینک کر بھاگی … رخسانہ خون میں نہا گئی تھی۔ اسپتال جاتے جاتے ٹھنڈی ہو گئی۔
انیلہ کو آہنی سلاخوں کے پیچھے پہنچادیا گیا۔ باوجود تمام تر غم و غصے کے ، ہمایوں بھائی نے اسے بچانے کی پوری پوری کوشش کی مگر اس نے خود ہی اقرار جرم کر لیا تو اسے سزا سے سزا ہو گئی۔
آج نہ امی سکون سے ہیں اور نہ انیلہ اور اس کے گھر والے۔ رخسانہ بھابھی کے گھر والوں پر جو بیتی وہ تو ایک الگ ہی داستان ہے۔ میں یہی سوچتی ہوں اگرامی پالنے میں پڑی انیلہ کار شتہ نہ مانگتیں تو یہ المناک داستان بھی جنم نہ لیتی۔