ایماندار لکڑہارا
ایک بار کا ذکر ہے کہ ایک چھوٹے سے گاؤں میں، جو سرسبز جنگلات اور صاف بہتی ندیوں کے درمیان واقع تھا، ایک ایماندار لکڑہارا رہتا تھا جس کا نام احمد تھا۔ احمد اپنی دیانتداری اور محنت کی وجہ سے دور دور تک مشہور تھا۔ ہر روز وہ اپنے پرانے مگر قابل اعتماد کلہاڑے کے ساتھ جنگل میں لکڑیاں کاٹنے جاتا، جنہیں وہ گاؤں کے بازار میں بیچ کر اپنے خاندان کے لیے معمولی روزی کماتا تھا۔
احمد کی زندگی سادہ لیکن مطمئن تھی۔ وہ ہمیشہ ایمانداری سے کمائی پر یقین رکھتا اور دوسروں کے ساتھ شفقت اور احترام سے پیش آتا۔ اس کی بیوی، عائشہ، اور دو بچے، زین اور سارہ، اس کی زندگی کی روشنی تھے۔ وہ ایک معمولی جھونپڑی میں رہتے تھے، مگر ان کا گھر محبت اور خوشی سے بھرا ہوا تھا۔
ایک خوبصورت صبح، جب احمد دریا کے قریب لکڑیاں کاٹ رہا تھا، اس کا کلہاڑا اس کے ہاتھ سے پھسل کر تیز بہتی ندی میں جا گرا۔ احمد بہت پریشان ہو گیا۔ اسے معلوم تھا کہ وہ نیا کلہاڑا خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا، اور اس کے بغیر وہ اپنا کام جاری نہیں رکھ سکتا تھا۔ وہ دریا کے کنارے بیٹھ گیا، اپنے ہاتھوں سے اپنا چہرہ چھپا لیا اور اپنے خاندان کے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہو گیا۔
جب احمد وہاں بیٹھا اپنے نقصان پر افسوس کر رہا تھا، ایک نرم آواز نے اسے پکارا۔ اس نے اوپر دیکھا اور دیکھا کہ پانی سے ایک چمکتی ہوئی ہستی ابھر رہی ہے۔ یہ ایک خوبصورت پری تھی، جس کا وجود ایک جادوئی روشنی سے چمک رہا تھا۔ وہ مسکرا کر احمد سے بولی، “اے لکڑہارے، تم کیوں اتنے اداس ہو؟”
احمد، حالانکہ حیران تھا، لیکن اس نے پری کو اپنی مشکل بیان کی۔ اس نے بتایا کہ اس کا واحد کلہاڑا دریا میں گر گیا ہے، اور اب وہ اپنے خاندان کے لیے روزی کمانے کے قابل نہیں رہا۔
پری نے اس کی کہانی ہمدردی سے سنی۔ پھر وہ پانی میں غوطہ لگا کر چند لمحوں بعد ایک چمکتا ہوا سنہری کلہاڑا لے کر ابھری۔ “کیا یہ تمہارا کلہاڑا ہے؟” اس نے پوچھا۔
احمد نے حیرت سے سنہری کلہاڑے کو دیکھا۔ یہ اس کی زندگی میں دیکھے گئے سب سے زیادہ شاندار چیزوں میں سے تھا۔ مگر اس نے سر ہلا کر جواب دیا، “نہیں، یہ میرا کلہاڑا نہیں ہے۔ میرا کلہاڑا پرانا اور لوہے کا تھا۔”
پری نے اس کی ایمانداری پر مسکرا کر دوبارہ پانی میں غوطہ لگایا۔ وہ ایک چاندی کا کلہاڑا لے کر ابھری اور پوچھا، “کیا یہ تمہارا کلہاڑا ہے؟”
ایک بار پھر، احمد نے سر ہلا کر کہا، “نہیں، یہ بھی میرا کلہاڑا نہیں ہے۔ میرا کلہاڑا صرف ایک سادہ لوہے کا تھا۔”
احمد کی ایمانداری سے متاثر ہو کر، پری نے ایک بار پھر پانی میں غوطہ لگایا اور آخر کار اس کا پرانا لوہے کا کلہاڑا لے کر ابھری۔ “کیا یہ تمہارا کلہاڑا ہے؟” اس نے پوچھا۔
احمد کا چہرہ خوشی سے دمک اٹھا۔ “ہاں، یہ میرا کلہاڑا ہے!” اس نے خوشی سے کہا۔
پری احمد کی ایمانداری سے بہت خوش ہوئی۔ اس نے کہا، “تم ایک اچھے اور ایماندار انسان ہو۔ تمہاری دیانتداری کے انعام کے طور پر، میں تمہیں تینوں کلہاڑے—سنہری، چاندی، اور تمہارا اپنا لوہے کا کلہاڑا دوں گی۔”
احمد نے دل کی گہرائیوں سے پری کا شکریہ ادا کیا اور اس فراخدلانہ تحفے کو قبول کیا۔ سنہری اور چاندی کے کلہاڑوں سے، وہ انہیں بیچ کر اپنے خاندان کے لیے ایک آرام دہ مستقبل محفوظ کرنے کے قابل ہو گیا۔ مگر وہ اپنی محنت جاری رکھتا، اپنے پرانے لوہے کے کلہاڑے سے کام کرتا رہا، کبھی نہیں بھولا کہ ایمانداری اور محنت نے اسے یہ غیر متوقع دولت بخشی ہے۔
احمد کی کہانی جلد ہی گاؤں بھر میں پھیل گئی، اور وہ سب کے لیے ایک مثال بن گیا۔ دیہاتی اس کی ایمانداری اور دیانتداری کی قدر کرتے اور اکثر اس سے مشورہ لیتے۔ احمد نے ایک طویل اور خوشحال زندگی گزاری، ہمیشہ ایمانداری اور محنت کے اصولوں کے مطابق زندگی بسر کی۔ اور یوں، ایماندار لکڑہارے کی کہانی ایک پسندیدہ روایت بن گئی، جو سب کو یاد دلاتی تھی کہ ایمانداری واقعی بہترین حکمت عملی ہے۔
**کہانی کا سبق**
ایمانداری سب سے بہترین پالیسی ہے۔ اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اگر ہم ایماندار اور سچے رہیں، تو زندگی میں ہمیں انعامات اور خوشیاں مل سکتی ہیں جن کا ہم نے کبھی تصور بھی نہیں کیا ہوتا۔ ایمانداری اور محنت ہمیشہ رنگ لاتی ہیں۔